بے فایدہ اور خدا سے غافل کرنے والی چیزوں کو خریدنا اور ان میں لگنا
ندیم احمد انصاری
دنیا میں انسان کو جس خاص مقصد کے لیے بھیجا گیا ہے، اس میں رخنہ ڈالنے والی ہر چیز مکروہ و ناپسندیدہ ہے۔ تمام انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کے بندے ہیں اور بندگی کا تقاضا ہے کہ دن و رات کے چوبیس گھنٹے اور زندگی کا ہر ہر لحظہ اپنے رب کے سامنے حاضری کے احساس کو قوی کریں آخرت کی تیاری کو کسی آن فراموش نہ ہونے دیں، اس لیے کہ بعض عارفین کا قول ہے کہ انسان کا ہر وہ سانس حرام ہے، جو خدا سے غفلت کی حالت میں لیا جائے۔ دنیا میں جن امور سے ضرورت کے تحت واسطہ پڑتا ہے، ان میں بھی آزمائش کے طور پر بہت کچھ ایسا ہوتا ہی ہے جو خدا و آخرت سے غافل کر دے، جیسے مال و اولاد وغیرہ، پھر از خود ان چیزوں کو خریدنا اور ان میں لگنا جو کہ اسی مقصد کے تحت وجود میں لائی گئی ہیں کیسے درست قرار دیا جا سکتا ہے۔فائن آرٹس یا فنونِ لطیفہ کے نام سے فی زمانہ بہت سے محرِمات کو حلال سمجھا جانے لگا ہے اور اس پر عقلی دلیلیں بھی دی جاتی ہیں، جب کہ عقل و خرد کے پیدا کرنے والے نے اُن چیزوں کو نہ صرف مہلک اور حرام قرار دیا ہے بلکہ شدید و رسوا کُن عذاب کی وعیدیں بھی بیان فرمائی ہیں۔
لہو و لعب اور موسیقی و گانا بجانا بھی ایسے ہی امور ہیں، جن پر ایک آیت کے تحت چند باتیں عرض کرنے کا ارادہ ہے کہ آج کل متمدن کہلانے، انعامات میں بڑی رقمیں حاصل کرنے اور عیش و عشرت کی زندگی کے خواب دیکھنے والے ان چیزوں کو نہ صرف اپناتے ہیں، بلکہ مذہب و اخلاق کے نام پر ان امور سے کنارہ کش افراد کو حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے اسلام کے نام پر انجمنیںقائم کر رکھی ہیں، ان میں حمد و مناجات بھی ان آلات کے ساتھ پیش کی جاتی اور یوں بر سرِ عام ان خرافات کو سندِ جواز فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے، جب کہ ارشادِ ربانی ہے:وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَالْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ،وَّیَتَّخِذَھَا ھُزُوًا،اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ۔اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں،تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو بے سمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیں، اور اس کا مذاق اڑائیں۔ ان لوگوں کو وہ عذاب ہوگا جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔(لقمان:6)
مولانا عبد الماجد دریابادی اس آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں کہ مراد اس سے عموماً غنا(موسیقی) سمجھی گئی ہے ، لیکن محققین کا فیصلہ ہے کہ اس میں گانے کا حصروتعین نہیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ اس سے مراد ہے گانا اور اس کے مشابہ چیزیں ہیں۔ گویا ہر بے کار، غیر مفید مشغلہ اس کے تحت میں داخل ہے ، جو حق کی طرف سے غفلت، بے رغبتی پیدا کرنے والا ہو، اس کے تحت میں آجاتا ہے ۔غنا کے باب میں محدثین وفقہا کے اقوال مختلف ہیں، جو گانا[بعض مخصوص صورتوں و شرائط کے ساتھ] محض دل بہلانے یا بہ اصطلاحِ فقہا دفعِ وحشتِ نفس کے لیے ہو، اس میں مضایقہ فقہاے حنیفہ کے نزدیک بھی نہیں، درمختار میں اسے سرخسی، عینی وعنایہ کے حوالے سے جائز رکھا ہے ۔اور اگر اس میں کلام حکیمانہ اور مضامین اخلاق ومعرفت کے ہوں، جب تو بالکل ہی جائز ہے[شرط یہ ہے کہ محرمات کے میں سے کوئی اور چیز شاملِ حال نہ ہو]،لیکن جو گانا لوگوں کے سنانے کے لیے جشنِ عقد اور عید وغیرہ کے علاوہ ہو، خصوصاً جو” قوالی “کی محفلیں مسجدوں اور خانقاہوں میں مجمعِ فساق کے ساتھ ہوا کرتی ہیں اور جنھیں عبادت سمجھا جاتا ہے ، وہ تو اور زیادہ قابلِ ملامت ہیں، بلکہ اس تواجد وتراقص کا شمار تو علاماتِ زندقہ میں سے کیا گیا ہے اور اس کا جائز سمجھنا حدودِ کفر میں داخل ہوجانا ہے ۔
”یشتری“ کے لفظی معنی خرید کرنے کے ہیں، مراد ہے اختیار کرنا، خریدار ہونا، خواست گار ہونا، راغب ہونا، سب اس میں داخل ہے ۔
”بغیر علم“ یعنی نفس پرستی اور عرفِ فاسد پر مبنی، اور ہر علمی سند سے خالی۔
”لیضل“میں لام تعلیل کا ہے۔
”سبیل اللہ“ سے مراد اللہ کا دین ہے ، یا کتاب اللہ کی تلاوت۔
آیت کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ یہاں ذکر ایسے لہو ولعب کا ہے جو دینِ حق سے روکنے والے ہوں اور ان کا اثر دوسروں تک متعدی ہو رہا ہو، بلکہ دینِ حق کی تحقیر دلوں میں پیدا کرانے والے ہوں، ظاہر ہے کہ ایسا مشغلہ صریح کفر کے درجے میں آجائے گا، اور اس کی تائید شانِ نزول کی روایتوں سے بھی ہوتی ہے ۔ جاہلیت میں کوئی ”قابل وفاضل “ شخص نضربن الحارث نامی تھا، آس پاس کے ملکوں کا سیاح۔ وہاں سے جاہلی ” لٹریچر “ کی اعلیٰ درجے کی کتابیں لاتا، انھیں لاکر اہلِ عرب کوسناتا۔ ایران کے بہادروں کے افسانے ، حیرہ کے بادشاہوں کے قصے [وغیرہ] پڑھ کر سناتا اور کہتا جی ان میں لگاؤ، قرآن کے وعظ میں کیا رکھا ہے؟ [اپنے] ہم راہ کوئی حسین چھوکری بھی رکھتا، عملی دل بہلاوے کے لیے شراب وکباب کے ساتھ اس کی پیشکش بھی کرتا رہتا۔[جس پر یہ آیت نازل ہوئی]
[اس لیے آیتِ مذکورہ کے ذیل میں] اس سے بھی بڑھ کر ممنوع وناجائز وہ سارے کھیل تماشے ہوں گے جو تہذیب و تمدن نے خدا اور آخرت کی طرف سے غافل کرنے کے لیے گڑھ لیے ہیں؛ سینما تھیڑ، پکچر، گیلری وغیرہا۔ نیز ” ادبیات “ ، افسانہ وشعر کا وہ بہت بڑا ذخیرہ، جو آج ” آرٹ “ کے بڑے پُر فخر کارنامے کی حیثیت سے پیش کیا جارہا ہے ۔ مرشد تھانویؒ نے فرمایا کہ اس میں ہر اس گانے کی حرمت آگئی جو عملاً دین سے غفلت کی طرف لے جانے والا ہو، یا اعتقاداً موجبِ ضلال ہو، اور قولِ فیصل یہ ہے کہ جو ان دونوں باتوں سے مبرا ہو، اس کا یہ حکم نہیں ہے ۔
آخرت کا ہر عذاب شدید والیم تو ہے ہی، یہ عذاب اس کے ساتھ ذلت آفریں بھی ہوگا۔ جس نے زندگی بھردینِ حق کی تحقیر اور بے وقعتی کی، وہ نالائق ہے ہی اسی قابل کہ کل اس کی بھی ہر طرح ذلت ورسوائی ہولے ۔ اس عذاب کا اصل ظہور تو آخرت ہی میں ہوگا لیکن دنیا میں بھی ایک طرح اس کا ظہور مشاہد ہے ، بھانڈ، نقال، گوَیّے، مراسی، کسبیاں، نچنیے ، غرض تمام طبقہ۔[یہاں تو آخرت کا عذاب بیان کیا گیا جب کہ] ” لھوالحدیث“ سے تعلق رکھنے والے دنیا میں بھی کیسے حقیر ورسوار رہتے ہیں، تاآں کہ کوئی معاشرہ مسخ ہو کر خود ہی ان کی رنگ میں رنگ جائے ، اور خود ہی فسق پیشہ بن جائے [وہ ہر ذی ہوش کے سامنے ہے]۔(تفسیرِ ماجدی)
اسی آیت کے ذیل میں مفتی محمد شفیع عثمانی صاحبؒ رقم طراز ہیں کہ لہو الحدیث میں لفظ”حدیث“ تو باتوں اور قصّے کہانیوں کے معنی میں ہے اور لہو کے لفظی معنی غفلت میں پڑنے کے ہیں ۔ جو چیزیں انسان کو ضروری کاموں سے غفلت میں ڈالیں وہ لَہْو کہلاتی ہیں اور بعض اوقات ایسے کاموں کو بھی لہو کہا جاتا ہے ، جن کا کوئی معتد بہ فایدہ نہ ہو، محض وقت گزاری کا مشغلہ یا دل بہلانے کا سامان ہو ۔ آیتِ مذکورہ میں لہو الحدیث کے معنی اور تفسیر میں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں؛ حضرت ابن مسعود ، ابن عباس و جابر رضی اللہ عنہم کی ایک روایت میں اس کی تفسیر گانے بجانے سے کی گئی ہے ، اور جمہور صحابہ و تابعین اور عامۂ مفسرین کے نزدیک لہو الحدیث عام ہے تمام ان چیزوں کے لیے ، جو انسان کو اللہ کی عبادت اور یاد سے غفلت میں ڈالے ، اس میں غنا، مزامیر بھی داخل ہیں اور بے ہودہ قصے کہانیاں بھی۔ امام بخاری نے اپنی کتاب ’الادب المفرد ‘میں اور بیہقی نے اپنی سنن میں لہو الحدیث کی یہی تفسیر اختیار کی اور فرمایا ہے کہ لہو الحدیث ھوالغناء واشباھہ، یعنی لہو الحدیث سے مراد گانا اور اس کے مشابہ دوسری چیزیں ہیں (جو اللہ کی عبادت سے غافل کر دیں) اور سننِ بیہقی میں ہے کہ اشتراء لہو الحدیث سے مراد گانے بجانے والے مرد یا عورت کو خریدنا یا اس کے امثال ایسی بے ہودہ چیزوں کو خریدنا ہے جو اللہ کی یاد سے غافل کریں ۔ ابن جریر نے بھی اسی عام معنی کو اختیار فرمایا ہے اور ترمذی کی ایک روایت سے بھی یہی عموم ثابت ہوتا ہے، جس میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ گانے والی لونڈیوں کی تجارت نہ کرو، اور پھر فرمایا فی مثل ہذا انزلت ہذہ الاٰیۃ ومن الناس من یشتری الخ [گانے والی لونڈیوں کا خصوصیت سے اس لیے ذکر فرمایا کہ اُس زمانے میں آزاد عورتیں یہ کام نہیں کرتی تھیں، جیسا کہ ترقیِ معکوس نے فی زمانہ رواج عام کر دیا]۔
ایک بات قابلِ نظر یہ ہے کہ قرآنِ کریم نے جتنے مواقع میں لہو یا لعب کا ذکر کیا ہے وہ مذمت اور برائی ہی کے مواقع ہیں، جس کا ادنیٰ درجہ کراہت ہے اور آیتِ مذکورہ لہو کی مذمت میں بالکل واضح اور صریح ہے ۔ مستدرک حاکم کتاب الجہاد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :یعنی دنیا کا ہر لہو (کھیل)باطل ہے ، مگر تین چیزیں؛ ایک یہ کہ تم تیر کمان سے کھیلو، دوسرے اپنے گھوڑے کو سدھانے کے لیے کھیلو، تیسرے اپنی بی بی کے ساتھ کھیل کرو۔اس حدیث میں ہر لہو کو باطل قرار دیا ہے اور جن تین چیزوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے در حقیقت وہ لہو میں داخل ہی نہیں ، کیوں کہ لہو تو اس کام کو کہا جاتا ہے جس میں کوئی دینی و دینوی فایدہ معتدبہا نہ ہو اور یہ تینوں چیزیں مفید کام ہیں جن سے بہت سے دینی اور دنیوی فوائد وابستہ ہیں ۔ تیر اندازی اور گھوڑے کو سدھانا تو جہاد کی تیاری میں داخل ہے، اور بیوی کے ساتھ ملاعبت توالد و تناسل کے مقاصد کی تکمیل ہے ۔ ان کو صرف صورت اور ظاہر کے اعتبار سے لہو کہہ دیا گیا ہے ، وہ حقیقت کے اعتبار سے لہو میں داخل ہی نہیں ۔ اسی طرح ان تین چیزوں کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے کام ہیں جن سے دینی یا دنیوی فوائد متعلق ہیں اور صورت کے اعتبار سے وہ لہو (کھیل) سمجھے جاتے ہیں،ان کو بھی دوسری روایاتِ حدیث میں جائز بلکہ بعض کو مستحسن قرار دیا گیا ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ جو کام حقیقتاً لَہوہوں، یعنی جن میں نہ کوئی دینی فائدہ ہو نہ دنیوی، وہ سب کے سب مذموم اور مکروہ تو ضرور ہی ہیں، پھر ان میں تفصیل ہے ، بعض تو کفر کی حد تک پہنچ جاتے ہیں، بعض حرام صریح ہیں اور کم سے کم درجہ مکروہ تنزیہی، یعنی خلافِ اولیٰ ہونے کا ہے ، جس سے کوئی لَہو‘ جو درحقیقت لہو ہو مستثنیٰ نہیں، جیسا کہ ایک حدیث میں خود اس کی تصریح موجود ہے ۔ ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ میں حضرت عقبہ بن عامر کی روایت کتاب الجہاد میں ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:لیس من اللَہو ثلاث تادیب الرجل فرسہ وملاعبتہ اہلہ ورمیہ بقوسہ ونبلہ، الحدیث۔(نصب الرایہ:4/273) اس حدیث نے خود یہ تصریح کر دی کہ یہ تین چیزیں جو مستثنیٰ کی گئی ہیں درحقیقت وہ لہو میں داخل ہی نہیں اور جو حقیقتاً لَہو ہے وہ باطل اور مذموم ہے ۔(معارف القرآن بترمیم)
nadeem@afif.in
Wednesday 8 February 2017
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment