Sunday, 30 August 2015


    الفلاح ٹائمز۱۳؍ذی القعدہ ۱۴۳۶ھ
Al Falah Times 13 Zil qada 1436, 29 August 2015

پانی کی قلت کے مسئلے کا حل؛ اسلام میں از مولانا ندیم احمد انصاری
Pani ki qillat ke mas'ale ka hal; Islam mein By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

Thursday, 27 August 2015


مصافحہ سے متعلق عوام میں مشہور چند غلط باتیں از مولانا ندیم احمد انصاری
Musafhe se mutalliq awaam mein mashhoor chand ghalat baatien By Maulana Nadeem Ahmed Ansari


حج سے پہلے کرنے کے چار کام از مولانا ندیم احمد انصاری
Hajj se pehle karne ke 4 kaam By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

حج سے متعلق عوام میں مشہور چند غلط باتیں از مولانا ندیم احمد انصاری
Hajj se mutalliq awaam mein mashhoor chand ghalat baatien By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

حرمین شریفین کے بعض متبرک مقامات اور مشہور اعمال کے اصطلاحی نا از مولانا ندیم احمد انصاری
Harmain shareefain ke baaz mutabarrik maqamaat aur mashhoor amaal ke istilaahi naam By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

حج بیت اللہ کے احکام و مسائل از مولانا ندیم احمد انصاری
Hajj-e-baitullah ke ahkam-o-masail By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

رسول اللہﷺ کا مبارک حج قدم بہ قدم از مولانا ندیم احمد انصاری
Rasoolullah ﷺ ka mubarak Hajj qadam ba qadam By Maulana Nadeem Ahmed Ansari


زیارتِ روضۂ رسول اللہ ﷺ کے فضائل و مسائل از مولانا ندیم احمد انصاری
Ziyarat-e-roza-e-rasoolullah ﷺ ke fazail-o-masail By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

حج کا مکمل مسنون طریقہ از مولانا ندیم احمد انصاری
Hajj ka mukammal masnoon tareeqa By Maulana Nadeem Ahmed Ansari
عمرہ ادا کرنے کا مسنون طریقہ از مولانا ندیم احمد انصاری
Umrah ada karne ka masnoon tareeqa By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

Saturday, 22 August 2015

جشن آزادی منانے والے جواب دیں از مولانا ندیم احمد انصاری Jashn-e-Azadi manane wale jawab den By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

داڑھی سے متعلق عوام میں مشہور چند غلط باتیں از مولانا ندیم احمد انصاری Dadhi se mutalliq awaam mein Mashhoor chand galat baatien By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

داڑھی سے متعلق عوام میں مشہور چند غلط باتیں
مولانا ندیم احمد انصاری

داڑھی مَردوں کے لیے زینت،ان کا حسن و جمال بلکہ کمال بھی ہے، اسی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مَردوں کو عورتوں سے ممیز کیا ہے۔اس لیے دینِ اسلام کے مطابق جب سے داڑھی کے بال اُگنے شروع ہوں، تب سے انھیں اکھیڑناامردسے مشابہت کے مترادف اوراس کا منڈانا یا ایک مشت سے پہلے کٹوانا یا پاؤڈر وغیرہ کسی بھی ذریعے سے اس کا زائل کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔واضح رہے کہ ایک مشت کے بقدر داڑھی رکھنا واجب ہے ، اگر کسی کو ملازمت وغیرہ کے لیے بھی اس کو کاٹنا پڑے تو ایسی ملازمت اختیار کرنا ہی جائز نہیں، کوئی اور جائز ذریعۂ معاش تلاش کرنا چاہیے، اللہ تعالیٰ اس سے بہتر اوربرکت والی روزی عطا فرمائے گا، ان شاء اللہ۔ ارشاد ربانی ہے:ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ۔در اصل داڑھی رکھنامحض سنت نہیں،واجب ہے، کیوں کہ یہ اسلام کے شعائر میں سے ہے لیکن بعض لوگ اس سے متعلق مختلف غلط فہمیوں کا شکار ہیں، اس لیے آج ہم ایسے ہی چند غلط فہمیوں کا ازالہ کریں گے۔ ان شاء اللہ

بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن شریف سے دلیل لاؤ کہ داڑھی رکھنا فرض ہے، حالاں کہ دلائلِ شرعیہ قرآن میں منحصر نہیں بلکہ وہ چار ہیں؛ (1) قرآن(2)سنت(3) اجماع اور(4) قیاس، پس ان میں سے کسی ایک سے ثابت کرنا گویا قرآن سے ثابت کرنا ہے۔(اغلاط العوام: 229)

بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں تو کہیں داڑھی رکھنے کا حکم نہیں آیا۔ آج کل یہ ایک عام عادت ہو گئی ہے کہ ہر مسئلے کی دلیل قرآن سے مانگتے ہیں، سو داڑھی رکھنے کے متعلق تحقیقی جواب میں عرض کرتا ہوں لیکن اول یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ جواب بالکل پھیکا اور سیدھا سادھا ہوگا، کیوں کہ تحقیقی بات ہمیشہ بے مزہ ہوتی ہے، دیکھیے غالبؔ اور مومنؔ خاں کے شعروں میں کیا لطف آتا ہے کہ لوٹنے لگتے ہیں اور حکیم محمود خاں کے نسخے کو سُن کر کسی کو بھی حال نہیں آتا لیکن شعر کار آمد نہیں اور حکیم محمود خان کا نسخہ کار آمد ہے، جس سے بیماری دفع ہوتی ہے اور تن درستی حاصل ہوتی ہے۔ غرض وہ تحقیقی جواب یہ ہے کہ ہمارے ذمے یہ ضروری نہیں ہے کہ داڑھی رکھنے کے واجب ہونے کو قرآن سے ثابت کریں بلکہ حدیث، فقہ سے ثابت کر دینا کافی ہے، کیوں کہ یہ بھی تو وحی میں داخل ہے۔ [بایں معنی کہ حدیث، قرآنِ کریم کی اور فقہ حدیث شریف کی توضیح و تشریح ہے]۔(اغلاط العوام: 229)

بعض لوگ کہتے ہیں کہ داڑھی رکھنے کا مسئلہ قرآن میں دکھلاؤ، سو حدیثوں سے جو احکام ثابت ہو چکے ہیں، وہ سب خداوندی احکام ہیں، کیوں کہ حدیث پر عمل کرنے کا حکم خود قرآن میں ہے، اس طور پر حدیثوں کے تمام حکم قرآن میں ہیں، دوسرا جواب یہ ہے کہ حلقِ لحیہ (داڑھی منڈانا) تغییر خلق اللہ (اللہ کی بنائی صورت بگاڑنا) ہے، جس کا حرام ہونا قرآن میں موجود ہے، پس حلقِ لحیہ کا حرام ہونا قرآن سے ثابت ہو گیا۔(اغلاط العوام: 229)

آج کل مسلمانوں نے ظاہری صورت بھی ایسی بنا لی ہے، جس سے ان کا مسلمان جاننا بھی دشوار ہے، داڑھی ترشوانا اور داڑھی منڈانا تو ایسا عام ہو گیا ہےکہ لوگ داڑھی منڈواکر شرماتے بھی نہیں۔ میں نے ایک موقع پر وعظ میں بیان کیا تھا، وہاں اکثر ریش تراش موجود تھے کہ صاحبو! پہلے آپ بوجہ ریش تراشی ہم ملّا لوگوں سے حیا کرتے تھے، اب اس کے برعکس معاملہ ہو گیا، داڑھی منڈوانے والا شرمندہ نہیں ہوتا اور سخت افسوس یہ کہ آپ لوگ ریش تراشی کا ارتکاب کریں اور بعضے کافر ریش درازی اختیار کرنے لگیں، اگر خوفِ خدا نہیں رہا تو قومی شعار سمجھ کر اپنی وضع( شکل و صورت) کی حفاظت کریںاور غیر وضع سے باز آئیں۔(اغلاط العوام: 227)

آج قوم قوم پکارا جاتا ہے، لفظِ قوم کی پرستش کی جاتی ہے لیکن افسوس ہے کہ آپ کو امتیازِ قومی (قومِ مسلم کے امتیازی نشان، شعارِ مسلم اور شعائرِ اسلام) کی بھی پرواہ نہیں، حالاں کہ داڑھی رکھنا فرض ہے اور بالفرض اگر آپ پر داڑھی رکھنا فرض بھی نہ ہوتا تب بھی قومی شعار بھی تو کوئی چیز ہے؟ کتنا افسوس ہے کہ مسلمان ہندوؤں کا شعار اختیار کریں(چوں کہ داڑھی منڈانا ہندوؤں کا شعار ہے)۔ (اغلاط العوام: 227)

بعض گناہ ایسے ہیں کہ انسان اس کے کرنے میں اپنی مجبوری اور عذر بیان کر سکتا ہے، گو یہ عذر وہم ہی کے درجے میں ہو، بھلا داڑھی منڈانے کی نازیبا حرکت میںکیا مجبوری اور عذر ہے؟ اگر کوئی صاحب یہ کہیں کہ اس سے حسن بڑھتا ہے، تو میں کہوں گا یہ بالکل غلط ہے، ایک عمر کے دو آدمیوں کو پیش کیا جاوے، جن میں ایک کی داڑھی منڈی ہو اور دوسرے کے چہرے پر داڑھی ہو، اس کے بعد ان کا مقابلہ کرکے دیکھ لیا جائے کہ کس کے چہرے پر حُسن برستا ہے اور کس پر پھٹکار برستی ہے، غرض داڑھی منڈانے کا سبب حسن و جمال تو ہو نہیں سکتا، حسن کی حفاظت [داڑھی] منڈانے میں نہیں ہے بلکہ مَرد کا حُسن تو داڑھی ہے۔ داڑھی عجیب چیز ہے، اس سے آدمی بہت شکیل و حسین معلوم ہوتا ہے بلکہ ایک شخص تو کہتے ہیں کہ اس سے تو آدمی بادشاہ معلوم ہوتا ہے۔ اچھا! ابتدائے عمر میں تو اس لیے منڈائی کہ خوب صورت ہوں مگر بوڑھے ہو کر منڈانے میں کیا مصلحت ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اگر داڑھی نہ منڈائی جائے تو کوئی نقصان نہیں اور منڈانے میں کوئی نفع بھی نہیں ہوتا، پھر اس گناہِ بے لذّت سے کیا فایدہ؟ فضول خدا کے سامنے ذلیل بھی ہوئے، دنیا میں کچھ مزہ بھی نہ آیا۔(اغلاط العوام: 228)

داڑھی کٹوانا باعثِ ذلّت ہے، دلیل یہ ہے کہ قیدیوں کی داڑھی کٹوائی جاتی ہے، ظاہر ہے کہ متمدن اقوام نے اس کو قیدیوں کے لیے باعثِ ذلت ہی سمجھ کر تجویز کیا ہے، نہ کہ باعثِ عزت سمجھ کر اور کسی قانون میں یہ نہ ملے گا کہ کسی اعزاز کے موقع پر داڑھی منڈانا تجویز ہوا ہو۔ تعجب ہے کہ جو لوگ ذلت سے بچتے ہیں وہ اس کو باوجود باعثِ ذلت تسلیم کرنے متمدن اقوام کے اختیار کرتے ہیں اور باعثِ عزت سمجھتے ہیں۔(اغلاط العوام: 228)

بعض لوگ داڑھی منڈانے ؍ کٹانے کے متعلق پوچھتے ہیں کہ یہ گناہِ صغیرہ ہے یا کبیرہ؟
اس کا جواب سنیے! اول تو یہ پوچھنا اس لیے بے کار ہےکہ گناہ صغیرہ ہو یا کبیرہ، سب واجب الترک ہے، اگر صغیرہ کی اجازت ہوا کرتی تو اس سوال کا مضایقہ نہ تھا لیکن جب صغیرہ گناہ کی بھی اجازت نہیں تو اس سوال کا بھی کوئی حق نہیں، پھر نظرِ صحیح سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ کبیرہ ہے کیوں کہ کبیرہ کی علامت اپنے مقام پر یہ طے ہو چکی ہے کہ اس کے ساتھ کوئی وعید متعلق ہو اور اس میں وعید کا آنا ثابت ہے، علاوہ اس کے استخفاف و اصرار سے صغیرہ بھی کبیرہ ہو جاتا ہے اور اس میں تو آج کل اس سے بڑھ کر استحلال (حلال سمجھنا) بلکہ استحسان (اچھا سمجھنا) ہو گیا ہے، جس میں اندیشۂ کفر ہے۔ (اغلاط العوام: 229)
افسوس یہ ہے کہ اعتقاد میں بھی اس حرکت کے استحسان کا درجہ (موجود ہے)، اس کو معیوب نہیں سمجھتے، حالاں کہ داڑھی منڈانا تو خاص جہاد کے موقع پر بھی جائز نہیں۔یہ محض جاہلانہ خیال ہے کہ داڑھی کے ہوتے ہوئے دشمن پر ہیبت نہ ہوگی، رعب نہ ہوگا، یہ بالکل غلط ہے، ہرگز صحیح نہیں بلکہ جہاد میں بھی داڑھی والے کا رعب اور ہیبت ہوتی ہے۔(اغلاط العوام: 230)

لطیفہ:
ایک شخص مولانا شہیدؒ کا ہم سبق تھا، ایک دن اس نے مولانا شہیدؒ سے کہا کہ داڑھی تو ایک مدِّ زائد ہے، فطری نہیں ہے کیوں کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو داڑھی نہیں ہوتی، والزائد اولیٰ بالحذف، مولانا نے جواب دیا کہ دانت بھی تو فطری نہیں ہیں، کیوں کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو دانت نہیں ہوتے، ان کو بھی توڑ دینا چاہیے، یہ سن کر مولانا عبد الحئی صاحبؒ نے فرمایا کہ واہ مولانا! کیا دندانِ شکن جواب دیا۔(اغلاط العوام: 230)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ داڑھی تُرک بھی منڈاتے ہیں، ہم ان کی تقلید کرتے ہیں[اسی طرح آج کل عربوں کا حوالہ دیا جاتا ہے]، جواب یہ ہے کہ جو منڈاتا ہے، [وہ]برا کرتا ہے، خواہ کسی ملک کا رہنے والا ہو، جب اس کا گناہ ہونا ثابت ہو گیا تو جو لوگ اس پر اصرار کرتے ہیں اور اس کو پسند کرتے ہیں اور داڑھی بڑھانے کو عیب جانتے ہیں بلکہ داڑھی والوں پر ہنستے ہیں اور اس کی ہجو کرتے ہیں، ان سب مجموعۂ امور سے ایمان کا سالم رہنا ازبس دشوار ہے، ان لوگوں کو واجب ہے کہ اپنی اس حرکت سے توبہ کریں اور ایمان و نکاح کی تجدید کریں اور اپنی صورت موافقِ حکمِ اللہ ورسول(ﷺ) کے بنائیں۔(اغلاط العوام: 230)

علاج:
صاحبو! اس کے بیان کرنے کی تو ضرورت نہیں کہ داڑھی منڈانا گناہ ہے کہ سب جانتے ہیں، کلام اس میں ہے کہ جن لوگوں کو عادت پڑی ہوئی ہے اور اس کو اپنی زینت سمجھتے ہیں، وہ اس کو کیسے چھوڑیں، تو میں ان کے لیے ایک آسان نسخہ بتلاتا ہوں کہ ان کے کسی کام میں فرق نہ آئے اور کام بھی کچھ ہو جاوے، وہ یہ کہ میں ان کو اس کام سے نہیں روکتا البتہ دن بھر یہ کام کرنے کے بعد شام کو خدا تعالیٰ کے سامنے اپنے گناہ کا اقرار اور اس پر ندامت ظاہر کیا کریںکہ یا اللہ! ہم بڑے نالائق، خبیث ، بڑے گنہ گار ہیں، ہمیں توفیق عطا فرما کہ تیرے احکام کی اطاعت کریں، پھر صبح اٹھ کر وہی کام کریں اور شام کو پھر یہی کام کر لیجیے۔۔۔اس پر بعض حاضرین نے کہا کہ حضرت جو یہ کام کرے گا، وہ کیا پھر داڑھی منڈا سکتا ہے؟ میں نے کہاکہ میں کب کہتا ہوں کہ منڈائے بھی، میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر داڑھی منڈانا ہی ہے تو یہ کام بھی کرتے رہو، اس میں نہ آپ کی زینت و فیشن میں فرق آتا ہے، نہ کسی کی عادت میں خلل پڑتا ہے، مگر گناہ کی تخفیف ہو جاتی ہے اور ممکن ہے کہ تدریجاً اس سے نجات بھی ہو جائے۔(اغلاط العوام: 231)

***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)

داڑھی سے متعلق عوام میں مشہور چند غلط باتیں از مولانا ندیم احمد انصاری Dadhi se mutalliq awaam mein Mashhoor chand galat baatien By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

Tuesday, 18 August 2015

جنایات کے احکام و مسائل از مولانا ندیم احمد انصاری


موبائل اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے (موبائل کے چند مسائل) از مولانا ندیم احمد انصاری
Mobile apni fitrat mein na noori hai na naari hai (Mobile ke chand masail) By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

Saturday, 15 August 2015

جشنِ آزادی منانے والے جواب دیں!

مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹ الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
دنیا بھر میں مختلف تہوار منائے جاتے ہیں، بعض قومی اور بعض بین الاقوامی اور بعض تہوار مذہبی ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک ہندوستان کے دو قومی تہوار ہیں؛ ایک یونِ آزادی، جو کہ ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کی یاد میں منایا جاتا ہے، جس دن ملک سے انگریزوں کو نکال باہر کیا گیا تھا اور ہندوستانیوں کو غلامی کی زندگی سے آزادی ملی تھی، دوسرا یومِ جمہوریہ، جو کہ ۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء کی یاد میں منایا جاتا ہے، جس دن سے ملک میں جمہوری نظام لاگو کیا گیا تھا۔عجیب بات ہے کہ آج ہم ان دنوں کو تہوار کے طور پر رسماً منا تو لیتے ہیں لیکن سالانہ یہ احتساب نہیں کرتے کہ اس سال ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟کیا ہم واقعی اس حالت میں ہیں بھی کہ نہیں کہ یومِ آزادی یا یومِ جمہوریہ کے عنوان سے خوشیاں منائیں، اس لیے کہ خوشیاں تو وہ ہوتی ہیں، جو سرور و انبساط پیدا کر دیں، وہ نہیں جو رسم کی طرح منائی جائیں۔ہندوستان ہمارا وطن ہے،ہمارے آبا واجداد کا وطن ہے، ہمیں اپنے وطن سے محبت ہے لیکن کیا کیجیے ہمیں ہمارے ہی ملک میں شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، ہمیں گاہ بگاہ ملک بدر کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں، ہمارے بچوں کو جبراً خلافِ مذہب رسومات میں جکڑنے کی کوششیں کی جاتی ہیں، ان سب کے باوجود لال قلعے کی فصیلوں سے رسمی سے بیانات کیے جاتے ہیں، آخر کوئی تو ہو جو ان جشنِ آزادی کے متوالوں سے پوچھے کہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوکر آپ کے سچے جھوٹے وعدوں پر ہم کیوں کر یقین کرلیں اور کیسے اپنے مستقبل کو محفوظ سمجھتے ہوئے یومِ آزادی کے جشن کی تقریبوں میں حصہ لیں، ہم ان تمام خوشیوں کا دل کی گہرائیوں سے حصے دار بننا چاہتے ہیں لیکن پھر بہت سے افکار و خیالات آکر ہمیں اس سے باز رکھتے ہیں، ایسے میں جو حضرات ان کاغذ کے پھولوں میں خوشبو محسوس کرتے اور ان مصنوعی خوشیوں کا لطف اٹھاتے ہیں، ہم ان سے چند سوالوں کے جواب طلب کرنا چاہتے ہیں، امید کہ ان تمام سوالوں کا معقول جواب عنایت فرما کر ہمارے دلوں کو اطمینان بخشیں گے۔
۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء سے آج تک ہم جوش و خروش سے ملک کی آزادی پر خوشیاں مناتےآئے ہیں، قید و بند اور غلامی سے آزادی کا دن ہے بھی تہوار منانے لائق لیکن پتہ نہیں کیوں اب یومِ آزادی کے موقع پر ویسی اندرونی خوشیاں نہیں محسوس ہوتیں جیسی چند سالوں پہلے تک ہوا کرتی تھیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ دل یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ملک پوری طرح سے آزاد ہے، ۱۹۴۷ء کو وطنِ عزیز نے انگریزوں کی غلامی سے تو آزادی حاصل کر لی لیکن آج بھی ملک کے سوداگر، دہشت گردی کے ایجنٹ، اوچھی سیاست کرنے والے، ملک کو فرقہ پرستی کی بھینٹ چڑھانے والے، قوم و مذہب کے نام پر انسانیت کا خون بہانے والے، انسان نما درندے جب تک ملک میں آزاد گھوم رہے ہیں، ان کی سیاہ نظریں جب تک ملک کی سالمیت پر ٹکی ہوئی ہیں، کیسے کوئی قلبی مسرتوں کا احساس کر سکتا ہے؟ آپ کو بھلے ہی خوشیاں محسوس ہو رہی ہوں لیکن صرف معینہ تاریخ پر یوں جشن منالینا، ایسے حالات میں ہمارے لیے مشکل ہے۔ پورے ملک میں جگہ جگہ سیاسی کرتب بازیاں جس پستی کے ساتھ رواں دواں ہیں، ایسے میں کیسے ایک حسّاس شہری آزادی کی خوشیاں منائے،جہاں ہر وقت اس بات کا ڈر لگا رہتا ہو کہ کب کیا ہو جائے گا؟اٹھارویں صدی میں جس وقت انگریزوں کی مخالفت پر کمر کسی گئی اور انیسویں صدے کے نصف آخر میں جس طرح صف آرائیاں کی گئیںاس کے بعد بیسویں صدی کے نصف تک پہنچتے پہنچتے یعنی ۱۹۴۷ء میں جس دن ہم انگریزوں کو اس ملک سے کھدیڑنے میں کامیاب ہوئے، اس کے بعد تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہر طرف امن و امان اور محبت و آشتی کے زمزمے ہوتے،ہر شہری بلا خوف و خطر پُر سکون زندگی بسر کرتا، ملک کے کسی باسی کو اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی کوئی فکر دامن گیر نہ رہتی، پھر آخر کیوں ہمارے پُرکھوں کی اتنی قربانیوں کے بعد ہمیں اس نعمت سے محروم رکھا گیا؟ کیوں آج بھی ہم سلگتے ہوئے ماحول میں صبح اور جلتی ہوئی راتوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کیے گئے؟ کیا ان سب کے باوجود ہم یوں رسمی سی یومِ آزادی منائیں، جشنِ آزادی منانے والے جواب دیں؟
اس ملک میں جہاں ہندؤوں نے جنگِ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہیں مسلمان پروانہ وار اگلی صفوں میں نظر آئے ، آج ان تمام باتوںسے دانستہ و نا دانستہ چشم پوشی کی جاتی ہے، آنے والی نسلوں کو ان کی صحیح تاریخ سے محروم رکھا جاتا اور گِنتی کے چند مسلم نام گنواکر باقی سب پر سیاہ قلم پھیر دیا جاتا ہے، یہی نہیں ان مجاہدینِ آزادی کے اَخلاف کو بات بات پر کسی دوسرے ملک چلے جانے کے لیے کہا جاتا ہے اور کہنے والوں کی کوئی سرزنش بھی نہیں کی جاتی بلکہ ان کی پشت پناہی کی جاتی ہے، ان کو وزارت کے عہدے سونپے جاتے ہیں اور انھیں قانون بنانے کے حق تفویض کیے جاتے ہیں، کیا ان سب کے بعد بھی ہم یوں رسمی سا یومِ آزادی منائیں؟ملک کا اربوں کھربوں روپیہ ودیش کی بینکوں میں کالے دھن کے روپ میں جمع ہے اور ملک میں رہنے والے نان وشبینے کے محتاج ہیں،اس ملک کا شہری جسم ڈھکنے کے لیے مناسب لباس نہیں جُٹا پاتا اور ملک کا’ سب سے بڑا خادم‘ دس دس لاکھ کے سوٹ پہنتا ہے، ایک غریب گاؤں سے اپنے گھر والوں کے اخراجات پورا کرنے کے لیے سالہا سال اپنے گھر والوں سے دور کسی اور مقام و ریاست میں رہنے اور اپنے گھر والوں کا ہجر سہنے پر مجبور ہے اور پردھان سیوک ملکوں ملکوں دورے پر گھومتا ہے، ملک کی اس زبوں حالی سے چشم پوشی کرکے آخر کیسے ہم آزادی کے گیت گائیں، جشنِ آزادی منانے والے جواب دیں!
وطنِ عزیز میں بار بار کی کوششوں کے باوجود فساد مخالف بل التوا کا شکار ہے اور فسادات ہیں کہ رُکنے کا نام نہیں لیتے، پارلیمنٹ کے کارکنان خود پارلیمنٹ کے تعطل کا باعث بنے ہوئے ہیں یا ہماری حکومت تاناشاہی کا شکار ہے اور ملک کی بیٹیوں کا سرِ شام گھر سے نکلنا، ان کی عزت و ناموس کو تار تار کرنے کی فراق میں ہے، جس ریاست کا کسان خود کُشی کرنے پر مجبور ہے، اس کا وزیر اعلیٰ بیرونِ ملک مع اہل و عیال کے سیر سپاٹے میں مشغول ہے، ہمیں سمجھ میں آتا ایسے میں ہم کیسے اور کیا کریں؟ایک مذموم عمل کو کرنے والے ملک میں آزاد گھومتے پھر رہے ہیںاور ان کی یکِ بعد دیگرے ضمانتیں منظور کی جا رہی ہیں اور اسی بُرے عمل کے ردِّعمل میں ملزم شخص کو بعجلت تختۂ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے، تمام روایات کو بالائے طاق رکھ کر اس کے لیے رات کو دن بنایا جاتا ہے اور اس پر کاروائی کی جاتی ہے نتیجہً صبح کا سورج نکلنے سے پہلے اس کے لیے موت کا پروانہ تیار کر لیا جاتا ہے، اسی پر بس نہیں اس کی نمازِ جنازہ میں شریک ہونے والوں تک کو شک کے دائرے میں کھڑا کیا جاتا ہے، اس دوگلے پن اور دوہرے انصاف کے پیمانے کو دیکھنے کے بعد ہم ملک کا یومِ آزادی کیسے منائیں، جشنِ آزادی منانے والے جواب دیں!
اگر آپ کے پاس ان سوالوں کے جوابات نہیں ہیں اور واقعۃً نہیں ہیں تو کیا محض اس رسمی سی خوشیوں کا اظہار آپ کے یا کسی کے دل کو کوئی خوشی و اطمینا ن پہنچا سکتا ہے، یقیناً نہیں تو کیوں ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے اور حقیقی خوشیاں تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی؟ کیوں ہر سال بطور رسم دہلی کے راج پتھ پر یوں بھیڑ جمع کرنے کو کافی سمجھا جاتا ہے؟ کیوں لال قلعے کی فصیلوں سے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں؟ہمیں بھی اپنی آزادی، اپنے ملک کی آزادی اور اس کایومِ آزادی عزیز ہے لیکن ان فکروں کے بوجھ تَلے ہم حقیقی خوشیاں کیسے محسوس کریں؟ ہم عوام سے بھی پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا آپ کو بھی اس کی فکر نہیں؟ اگر ہے تو کیوں ان مسائل کو طاقِ نسیان کی زینت بنایا جاتا ہے؟  کیا آپ نے سوچا ہے کہ اس رویہ کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ اگر نہیں تو خدارا یہی سوچو کہ آخر کب سوچوگے!
•••


جشنِ آزادی تو ٹھیک ہے لیکن ان باتوں کا جواب دیں از مولانا ندیم احمد انصاری
 Jashn-e-Azadi to thik hai, lekin in baaton ka jawab den By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

Friday, 14 August 2015


الفلاح ٹائمز ۱۵تا ۲۲؍اگست ۲۰۱۵ء
Al Falah Times 15 to 22 August 2015

جب پڑا وقت گلستاں کو خون ہم نے دیا از مولانا ندیم احمد انصاری
Jab pada waqt gulistaan kon khoon hamne diya By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

جنگِ آزادیٔ ہند میں مسلم خواتین کا کردار از طاہرہ خاتون
Jung-e-azadi-e-hind mein muslim khawateen ka kirdar By Tahera Khatoon

Thursday, 13 August 2015

حج سے متعلق عوام میں مشہور چند غلط باتیں از مولانا ندیم احمد انصاری
Hajj se mutalliq awaam mein mashhoor chand ghalat baatien By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

Saturday, 8 August 2015

حج کے مبارک مہینوں میں پھر آیا موسم لوٹنے کا از مولانا ندیم احمد انصاری
Hajj ke mubarak maheeno mein phir aya mausam lootne ka

الفلاح ٹائمز ۲۲؍شوال المکرم 1463ھ 9 اگست 2015ء

Thursday, 6 August 2015


سلام سے متعلق عوام میں مشہور چند غلط باتیں از مولانا ندیم احمد انصاری
Salam se mutalliq awaam mein mashhoor chand ghalat baatien By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

Tuesday, 4 August 2015


میں اسی لیے بھیجا گیا ہوں کہ اچھے اخلاق کی تکمیل کروں
Main isiliye bheja gaya hun ke achche Akhlaq ki takmeel karun

Sunday, 2 August 2015


قیامت کے دن، اعمال تولے جانے کے وقت سب سے وزنی
Qayamt ke din amaal tole jane ke waqt sabse wazni

Saturday, 1 August 2015


تم میں سب سے بہتر وہ ہے، جس کے اخلاق اچھے ہوں
Tum mein sab se behtar wo hai, jiske akhlaq achche hon
اگر ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام بھی پاکستان چلے گئے ہوتےاز مولانا ندیم احمد انصاری
Agar Dr. A.P.J Abdul kalam bhi pakistan chale gaye hote By Maulana Nadeem Ahmed Ansari
اگر ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام بھی پاکستان چلے گئے ہوتے!

مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
بھارت رتن و سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی رحلت پر پورے ملک میں جس پیمانے پر سوگ کا عالم رہا، ہمارے علم کے مطابق اس سے قبل کسی وزیر اعظم یا صدرِ جمہوریہ کے حصے میں یہ دولت نہیں آئی، یہ ان کی انتائین مقبولیت کی بین دلیل ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہندوستان کی ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ ایک صدرِ جمہوریہ کی رحلت پر پوری قوم یوں متحد ہو کر تصویرِ غم بنی رہی اور موصوف کی خدمات کا اعتراف اپنے بے گانے ہر ایک نے کیا۔ خصوصاً وہ نوجوان طبقہ، جسے کسی سے سروکار نہیں ہوتا، اس نے بھی اس عظیم رہنما کو دل سے سلامی دی اور موجودہ دور کی معروف سوشل سائٹس اور ایپس پر ان کے تابندہ چہرے کی تصویریں مسلسل نظر نواز ہوتی رہیں۔ ہندو ہو یا مسلمان سب نے ملک کی اس عبقری شخصیت کو شایانِ شان خراجِ عقیدت پیش کیا، اے کاش! کہ وہ اس عظیم ہستی کے دیے ہوئے تعمیر و ترقی کے سبق سے کبھی صَرفِ نظر نہ کریں۔حکومت اور اعلیٰ عہدے دارانِ حکومت نے بھی اس عظیم شخصیت کے احسانِ گراں بار کو یاد کیا نیز پوری میڈیا میں تقریباً دو تین دن تک یہی موضوع چھایا رہا،یوںاس عظیم ہستی کے انتقال نے جس طرح ملک کے عوام کومذہبی، ذاتی اورعلاقائی و لسانی حد بندیوں سے اوپر لاکر ایک کر دیا، اس سے واقعی ہر محبِ وطن کا دل باغ باغ ہو گیا۔
قارئین کو مضمونِ ہٰذا کے عنوان سے چونکنے کی ضرورت نہیں، در اصل اس عنوان کے تحت مضمون نگار صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہے کہ وطنِ عزیز میں اس وقت مسلمانوں کو جس اجنبیت کا احساس دلایا جا رہا ہے اور شر پسند جس طرح ملک کی فضا کو مسموم کرنے کی مسلسل کوششیں کر رہے ہیں، بلا تحقیق کسی بھی معاملے میں جس طرح مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کا سلسلہ جاری ہے، جس طرح مسلمانوں کے اظہارِ خیال پر پابندی عائد کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور ان سب کے باوجودکسی جرأت مندکی جانب سے کسی حق بات کے اظہار پر فتنہ پرور لوگ جس طرح اسے بار بار پاکستان چلے جانے کا مشورہ دے رہے ہیں، صرف اس لیے کہ وہ مسلمان ہے۔۔۔تو ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام بھی اگر ان سب باتوں سے دل برداشتہ ہو کر پاکستان چلے گئے ہوتے، تو آج آپ کس پر فخر کرتے؟ آج جسے آپ میزائل مین اور بھارت رتن کے روپ میں دیکھ کر یاد کر رہے ہیں، وہ بھی تو مسلمان ہی تھا! آپ کو یاد دلا دیں اس ہندوستان میں جو مسلمان رہتے ہیں، وہ اپنے وطن کے تئیں اس درجے وفادار ہیں کہ ان کی وفاداری میں شبہ کرنا گویا لفظِ وفاداری کو گالی دینا ہے۔ جنگِ آزادی سے لے کر اب تک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، جس وقت دوسرے خوابِ غفلت میں سوئے ہوئے تھے، اس وقت بھی اگلی صفوں میں مسلمان ہی نظر آئیں گے، پھر بھی انھیں آج پاکستان جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے! ایک بات اور ملحوظ رہےکہ تقسیمِ وطن کے بعد جن مسلمانوں نے ہندوستان کو اپنا وطن باقی رکھا، یہ ان کی مجبوری نہیں بلکہ اپنی پسند تھی۔اس لیے خدارا اب تو زہر اگل کر ملک کی فضا کو مسموم کرنا بند کر کیجیے۔
آگے ہمیں سابق صدرِ جمہوریہ کی زندگی کے چند روشن گوشوں پر گفتگو کرنی ہے، باوجود اس کے کہ اس موضوع پر بہت سے مضامین شائع ہو چکے ہیں لیکن ہمیں امید ہے کہ مضمونِ ہٰذا میں ضرور چند باتیں آپ کی توجہ اپنی طرف مبذور کروانے میں کامیابی حاصل کریں گی۔ان شاء اللہ۔
 ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام ایک اعلیٰ مفکر، سیاست داں، سائنس داں، بھارت رتن، سچے انسان دوست اور بہترین مسلمان تھے۔ جن کی زندگی بھی امن و آشتی سے عبارت تھی اور ان کی موت نے بھی محبت و پیار کی ہوائیں چلا دیں۔ موصوف مثبت و اعلیٰ سوچ رکھنے والے بلند ترین اوصاف کے حامل شخص تھے، یہ ان کے نیک اوصاف کی کا ثمرہ ہی ہے کہ آج مختلف و متضاد نظریات وافکار رکھنے والے بھی ان کی رحلت پر آب دیدہ ہیں۔ان میں ایمان داری، دیانت داری اور سادگی کی صفت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رحلت پر مذہبی علماء نے بھی خراجِ عقیدت پیش کیا اور ان کی رحلت کو ملک و ملت کا خسارہ ٹھہرایا،اس لیے ہماری دل دعا ہے؛ خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھی مرنے والے میں۔
اےپی جے عبد الکلام یعنی ابو الفاخر زین العابدین عبد الکلام ہندوستان کے سابق صدر اور معروف جوہری سائنس داں تھے، جو۱۵؍ نومبر۱۹۳۱ء کو تامل ناڈو کے رامیشورم میں پیدا ہوئے۔ موصوف ہندوستان کے گیارھویں صدر تھےاور انھیں ان کی اعلیٰ کارکردگیوںکی بنا پر ہندوستان کے اعلیٰ ترین شہری اعزازات؛ ۱۹۸۱ء میں پدم بھوشن اور۱۹۹۷ء میں بھارت رتن سے نوازا گیا تھا۔ انھیں ملک کے میزائل پروگرام کا خالق کہا جاتا ہے جب کہ ملک کے جوہری پروگرام کی ترقی میں بھی ان کا کردار اہم تھا۔وہ ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتے تھے، ان کے والد ماہی گیروں کو اپنی کشتی کرائے پر دینے کا کام کرتے تھے، اگرچہ وہ خود تعلیم یافتہ نہیں تھے لیکن کہا جاتا ہے کہ عبدالکلام کی زندگی پر ان کے گہرے اثرات رہے۔ انھوں نے اپنے عمل سے جو سبق دیے وہ عبدالکلام کے بہت کام آئے۔ ناسازگیِ حالات کے باعث عبد الکلام کو تعلیم کے دوران اخبار تقسیم کرنے کا کام تک کرنا پڑا۔ آٹھ سال کی عمر میں اپنے ایک رشتے دار شمس الدین کے ساتھ اخبار فروخت کرنے والے اس بچے کے بارے میں کون کہہ سکتا تھا کہ ایک دن وہ ملک کا صدر، بھارت رتن اور میزائل مین کہلائے گا۔ ایسے نامساعد حالات کے باوجود انھوں نے مدراس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے خلائی سائنس میں گریجویشن کیا اور اس کے بعد اس کرافٹ منصوبے پر کام کرنے والے دفاعی تحقیقاتی ادارے سے جُڑ گئے ،جہاں ہندوستان کے پہلے سیٹلائٹ طیارے پر کام ہو رہا تھا۔مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میںجب داخلے کا وقت تھا تو ان کے پاس ایک ہزار روپے فیس تک نہ تھی، اس لیے ان کی بہن نے اپنی چوڑیاںگروی رکھ کر بھائی کے داخلے کا انتظام کیا۔ عبدالکلام نے ایروناٹیکل انجینئرنگ کرنے کے بعد۱۹۶۹ء میں ہندوستانی خلائی تحقیقی ادارے میں ملازمت اختیار کی، اس کے بعد وہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے تک ہندوستان میں دفاعی تحقیق اور ترقی کے ادارے اور انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن کے منتظم رہے۔آگے چل کر پروجیکٹ ڈائریکٹر کے طور پر انھوں نے پہلے سیٹلائٹ جہاز ایسیلوا کی لانچنگ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر عبدالکلام نے۱۹۷۴ء میں ہندوستان کا پہلا ایٹم بم تجربہ کیا، جس کے باعث انھیں ’میزائل مین‘ کے نام سے جانا جانے لگا۔اس کے علاوہ۱۹۹۸ء میں پوکھران کے ایٹمی دھماکوں میں ان کا کردار کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ڈاکٹر عبد الکلام ہندوستان کے ایسے سائنس دان ہیں،جنھیں ۳۰ سے زائد یونی ورسٹیوں اور اداروں سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریوں سے نوازا گیا۔
سیاسی زندگی
ہندوستان کے گیارھویں صدر کے انتخاب کے موقع پر انھوں نے۸۹فیصد ووٹ حاصل کر کے اپنی حریف لکشمی سہگل کو شکست دی۔کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ ان کا صدر منتخب ہونا گویا طے ہی تھا اس کے لیے انتخاب محض ایک رسمی کارروائی تھی۔اس طرح عبدالکلام ہندوستان کے تیسرے مسلمان صدرمنتخب ہوئے، جن کا انتخاب ملک کے مرکزی اور ریاستی انتخابی حلقوں کے تقریباً پانچ ہزار اراکین نے کیا۔ انھوں نے۲۵؍ جولائی کو اپنا عہدہ سنبھالااور وہ اس عہدے پر ۲۰۰۲ءسے ۲۰۰۷ء تک بنے رہے۔
تصنیفات
ڈاکٹر عبد الکلام نے اپنی ادبی و تصنیفی کاوشوں کو چار بہترین کتابوں میں پیش کیا:(۱) پرواز (ونگس آف فائر کا اردو ترجمہ)(۲) انڈیا-۲۰۲۰- اے وژن فار دی نیو ملینیم(۳)مائی جرنی اور (۴) اگنیٹڈ مائنڈز- انليشگ دی پاور ودن انڈیا۔ان کتابوں کا مختلف ملکی و غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔
مذاق و مزاج
 ڈاکٹر صاحب عجیب مزاج و مذاق کے آدمی تھے، جب ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن سے وابستہ تھے تو انتظامیہ نے حفاظتی انتظامات کے لیے دیوار پر کانچ کے ٹکڑے لگانے کا منصوبہ بنایا لیکن ڈاکٹر صاحب نے یہ منصوبہ صرف اس بنا پر ردّ کردیا کہ اس سے پرندوں کو دیوار پر بیٹھنے میں مشکل ہوگی۔ ایک تعلیمی ادارے کی تقریب میں انھوں نے صرف اس وجہ سے مخصوص کرسی پر بیٹھنے سے انکار کردیا کہ اس کا حجم دیگر کرسیوں سے زیادہ تھا، جس سے ایک خصوصی امتیاز پیدا ہوتا تھا۔ یہ مذاق و مزاج موصوف کا آخر وقت تک رہا، ان کے ساتھی سرجن پال سنگھ کا بیان کہ جس تقریب میں ڈاکٹر صاحب کو دل کا دورہ پڑ کر انتقال ہوا، اس میں جاتے وقت سکیورٹی دستے کے جوان کو کھڑا دیکھ کر وہ مجھ سے بار بار کہتے رہے کہ اسے کھڑا کیوں رکھا گیا ہے، وہ تھک گیا ہوگا، یہی نہیں بلکہ آئی آئی ایم شیلانگ پہنچنے کے بعد انھوں نے خود جا کر اس جوان کا شکریہ ادا کیا اورکہا کہ تم تھک گئے ہوں گے، کچھ کھایا نہیں؟ مجھے افسوس ہے کہ میری وجہ سے تمھیں تکلیف اٹھانی پڑی۔

سنہری باتیں
انسان جس درجے کا ہوتا ہے، اس کی باتیں بھی اسی درجے کی ہوتی ہیں۔ اس لیے یہاں ہم اس عظیم شخصیت کی طرف منسوب چند سنہری باتیں بھی پیش کر رہے ہیں، جن میں اتھاہ گہرائی اور زندگی کا سبق ہے۔ ڈاکٹر عبد الکلام نےکہا تھا:
�• خدا بھی اُنھی کی مدد کرتا ہے جو سخت محنت کے عادی ہوں۔
�• انتظار کرنے والوں کو صرف اتنا ہی ملتا ہے، جتنا کوشش کرنے والے چھوڑ دیتے ہیں۔
�• آپ اپنا مستقبل نہیں بدل سکتے لیکن اپنی عادتیں بدل سکتے ہیں اور آپ کی بدلی ہوئی یہ عادتیں آپ کا مستقبل بدل دیں گی۔
�•اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لیے آپ کو اپنے مقصد کے تئیں یک سو ہونا ہوگا۔
�•ایک اچھی کتاب ہزار دوستوں کے برابر ہے لیکن ایک اچھا دوست ہزار کتب خانوں کے برابر ہے۔
�•خواب وہ نہیں، جو آپ نیند میں دیکھتے ہیں، خواب وہ ہیں، جو آپ کو سونے نہیں دیتے۔
�• اس سے قبل کہ خواب سچ ہوں، آپ کو خواب دیکھنے ہوں گے۔
�• عظیم خواب دیکھنے والوں کے عظیم خواب ہمیشہ پورے ہوتے ہیں۔
�• انسان کو دشواریوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے کہ کامیابی کا لطف اٹھانے کے لیے یہ ضروری ہے۔
�•جب میں مرجاؤں تو میری انتقال پر چھٹی دینے کے بجائے اضافی کام کیا جائے۔
وفات
اس دنیا میں جو بھی آتا ہے، اسے ایک نہ ایک دن تو یہاں سے جانا ہی ہے، اسی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئےیہ عظیم انسان بھی گذشتہ دنوں اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا۔ ۸۳؍برس کی عمر میں،۲۷؍ جولائی۲۰۱۵ء بروز پیر شیلانگ میں ایک تقریب کے دوران انھیں اچانک دل کا دورہ پڑا جس سے وہ وہیں گرپڑے اور انھیں فوری طور پر اسپتال بھی منتقل کیا گیا لیکن وہ جاں بَر نہ ہوسکے اور چند ہی لمحوں میںروح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
alfalahislamicfoundation@gmail.com