Tuesday 28 July 2015

دنیاکے پہلے مترجمِ قرآن مسند الہندحضرت شاہ ولی اللہ محدِّث دہلویؒ


مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن،انڈیا)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ ۱۰؍فروری۱۷۰۳ء بمطابق ۴؍شوال۱۱۱۴ھ،چہار شنبہ کے دن طلوعِ آفتاب کے وقت ،قصبہ پھلت ،مظفر نگر،یو پی،ہند میں پیدا ہوئے۔تاریخِ ولادت ’’عظیم الدین‘‘سے نکلتی ہے۔عارف باللہ حضرت مولانا شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلۂ نسب ۳۰؍واسطوں سے حضرت امیر المؤمنین ،خلیفۂ دوم ،فاروق اعظم حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔شجرۂ نسب یہ ہے:شاہ ولی اللہ بن الشیخ عبد الرحیم بن الشہید وجیہ الدین بن معظم بن منصور بن احمد بن محمود بن قوام الدین عرف قاضی قاذن بن قاضی قاسم بن قاضی کبیر عرف قاضی بدہ بن عبدالملک بن قطب الدین بن کمال الدین بن شمس الدین بن سید ملک بن عطا ملک بن ابو الفتح ملک بن عمر حاکم ملک بن عادل ملک فاروق بن جرجیس بن احمد بن محمد شہریار بن عثمان بن ماہان بن ہمایوں بن قریش ابن سلیمان بن عفان بن عبداللہ بن محمد بن عبداللہ ؓبن عمر ؓبن الخطاب۔
شاہ ولی اللہ صاحبؒ کے والد ماجدشاہ عبد الرحیم صاحبؒ ’’فتاویٰ عالگمگیری‘‘کو ترتیب دینے والی جماعتِ علماء میں شامل اور ملک کے ممتاز ترین فقہ حنفی کے عالم وصاحبِ نظر وصاحبِ درس فقیہ تھے۔اس جماعت کے نگراں کار اور صدر شیخ نظام الدین برہان پوری تھے۔سلطان اورنگ زیب عالم گیرؒ نے اس کام پر (اپنے زمانے میں)دو لاکھ روپیے صَرف کیے۔مصنفِ’’الثقافۃ الاسلامیۃ فی الہند‘‘نے بڑی تحقیق وتفحص وتحقیق کے بعد اس کے مرتبین کے نام پیش کیے ہیں،جن کی تعداد اکیس ہوتی ہے۔حضرت شاہ عبد الرحیم صاحبؒ بھی اس جماعت کے ایک رکن رکین تھے۔
پانچ سال کی عمر میں قرآن مجید پڑھنے کے لیے مکتب میں بیٹھے،سات سال کی عمر میں آپ کے والد ِ بزرگوارحضرت مولانا شیخ عبد الرحیم صاحبؒ نے آپ ؒ کو نماز پر کھڑا کیااور رمضان میںروزہ رکھوایا،پھر فارسی کی درسی اور ابتدائی صرف ونحو کی کتابیںاوردسویں سال’’ شرح ملاجامی‘‘ شروع کروائی۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ (اس وقت تک)مجھ میں بالجملہ مطالعہ کی استعداد پیدا ہوگئی تھی۔چودہ سال کی عمر میں ’’بیضاوی ‘‘کا ایک حصہ پڑھا،پندرہ سال کی عمر میں ہندوستان میں رائج تمام علومِ متعارفہ یعنی کتبِ تفسیر،حدیث ،فقہ،اصولِ فقہ،علمِ منطق،کلام ، سلوک،حقائق وخواص اسماء وآیات، طبّ، حکمت، نحو اور ہندسہ وحساب وغیرہ سے فارغ التحصیل ہو گئے۔اسی سال آپؒ کے والد ماجد ؒنے آپ کے سر پر فضیلت کا عمامہ رکھا اور درس کی عام اجازت دی اور اس تقریب کی خوشی میں تمام شہر کے مشائخ وقضاۃ وفقہاء کی دعوت کی اور دستار بندی کی رسم ادا کی۔
اسی سال شیخ عبد اللہ پھلتی ؒ کی صاحب زادی سے آپؒ کا عقد ِنکاح ہوا۔ان سے آپ ؒ کے بڑے بیٹے شیخ محمد پیدا ہوئے،جنھوں نے آپؒ ہی سے تعلیم پائی۔موصوف شاہ صاحبؒ کی وفات کے بعد قصبہ بڈھانہ منتقل ہوگیے اور مدۃ العمر وہیں رہ کر ۱۲۰۸ھ میں وفات پائی۔اسی بنا پر شاہ صاحب ابو محمد کنیت کرتے تھے۔اسی زمانہ میں شاہ صاحبؒ کے والد بزرگوار نے سفرِ آخرت قبول فرمایا،بعدہٗ آپ اپنے والد ِ بزرگ وار کی جگہ قائم مقام اور سجادہ نشین ہوئے اور طالبانِ ہدایت کو راہِ راست پر لگانا شروع کیا۔کتبِ دینیہ وعقلیہ کی تدریس کا سلسلہ جاری کیا،جوق در جوق لوگ آنے شروع ہوگئے،سیکڑوں طالبانِ علم مستفیض ہونے لگے،عجیب و غریب کتابیں تصنیف کیں، جنھیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔شاہ صاحبؒ کی تصانیف علومِ دینیہ میں روشنی کا ایک مینار ہیں۔طبیعت میں اجتہادی قوت تھی،نئے نئے نکات نکالے،زمانہ میں شہرت حاصل کی ،مسلَّم الثبوت مانے گیے ،حال یہ ہے کہ آج بھی موافق،مخالف سب آپؒ کے اقوال سے سند پکڑتے ہیں۔
آپؒ کا دوسرا نکاح مولانا سید حامد صاحب سونی پتی ؒکی دختر کے ساتھ ہوا،جن کے بطن سے حضرت شاہ عبد العزیز صاحبؒ،شاہ رفیع الدین صاحبؒ ،شاہ عبد القادر صاحبؒ اور شاہ عبد الغنی صاحبؒ پیدا ہوئے۔یہ تمام حضرات بھی اپنے وقت کے مستند عالم،فاضل،عارف،کامل،محدث،مفسّرہوئے۔رات دن دینی اشاعت میں مصروف رہے اورلِلّٰہ قرآن و حدیث کا درس دیتے رہے۔
شاہ صاحبؒ کی تصانیف کی تعداد چالیس کے قریب ہے،صرف علمِ حدیث میں ہی متعدد کتابیں :(۱)الدرالثمین فی مبشرات النبی الامینﷺ (۲)النوادر من احادیث سید الاوائل والاواخرﷺ(۳)المسلسلات من حدیث النبی ﷺ(۴)اربعون حدیثا مسلسلات بالاشراف فی غالب سندھا(۵)الإرشاد إلی مہمات علم الاسناد(۶)شرح تراجم ابواب صحیح البخاری (۷)المسویٰ من الاحادیث المؤطا(۸)المصفیٰ شرح المؤطا(۹)رسالہ در فضیلت بخاری(۱۰)حجۃ اللہ البالغۃ…وغیرہ بہت مشہور ومعروف ہیں۔
شاہ صاحب ؒ کے خاص کارنامے مختصر طور پریہ ہیں کہ انھوں نے مسلمانوں کے مختلف علمی اور فقہی طبقوں کے افکار میں مطابقت کے پہلو نمایاںکرکے ان کے درمیان صلح وآشتی پیدا کرنے کی کوشش کی اور اختلافی مسائل میں الجھے رہنے کے بجائے انھیں متفق علیہ مسائل کی طرف مائل کیا ۔تطبیق ان کا خاص فن ہے۔انھوں نے تعلیمی نصاب کے پرانے ڈھانچے میں اصلاح وترمیم کو بہ طورِ خاص پیشِ نظر رکھا اور اسے عقلی موشگافیوں یا نظری الجھنوں سے بہ حدِّامکان پاک کردیا۔عقیدہ وعمل کی بہت سی خرابیاں دور کرنے کی کوشش کی اور امیر وغریب کے درمیان جن طبقاتی کشمکش کا آغاز ہو چکا تھا،اسے رفع کرنے کے لیے کتاب وسنت سے اقتصادی اور معاشی نظریے پیش کیے۔اسرار ِ شریعت کی توضیح میں شاہ صاحبؒ جیسے عالم بہت کم نظر آتے ہیں۔قرآنِ حکیم کا پورے عالم میں پہلی بار ترجمہ کیاجو فارسی زبان میں تھا،جس پر آپ ؒ کی سرزنش بھی ہوئی اور دہلی کے چاندنی چوک پر کھڑا کرکے آپ کو کوڑے لگائے گیے۔قرآن حکیم کے ترجمے اور احادیثِ شریفہ کی تعلیم انھیں کی بدولت عمومی طور پر اشاعت پذیر ہوئی۔
الغرض شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کے یہاںدرس وتدریس اور ہدایت کا بازار ہر وقت گرم رہتا تھا۔لاکھوں شاگردہزاروںمرید ہوئے اور سیکڑوں طالب بنے۔بالآخر اس بیش قیمت وبابرکت مدتِ حیات کے ؛جس کا ایک ایک لمحہ قیمتی ،اسلام ومسلمانوں کے لیے مفیداور احیاء سنت ،قرآن وحدیث کی نشر واشاعت ،تعلیم وتربیت ،یادِ الٰہی اور اعلائِ کلمۃ اللہ کی فکر میں مصروف تھا…خاتمہ کا وقت آگیا،جس سے{ کل نفس ذائقۃ الموت }کے اعلان ووعدہ کے مطابق مخلوقات ِ عالم میں سے کوئی مستثنیٰ نہیںاور شنبہ کے روز ۱۹؍محرم الحرام ۱۱۷۶ھ،تریسٹھ سال کی عمر میں حضرت شاہ صاحبؒ اس دار فانی سے کوچ کر گیے۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
مآخذ:(۱) دائرہ معارف اسلامیہ،لاہور(۲۰۰۳ء)(۲) تاویل الاحادیث ،مطبع احمدی،دہلی (۳)الثقافۃالاسلامیۃ فی الہند(اردو) (۴)تاریخِ دعوت وعزیمت اور (۵) شاہ ولی اللّٰہ کی خدماتِ حدیث وغیرہ۔
alfalahislamicfoundation@gmail.com
دنیا کے پہلے مترجمِ قرآن مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ از مولانا ندیم احمد انصاری
Dunya ke pehle Mutarjim-e-Qur'an Musnadul Hind Hazrat Shah Waliyyllah Dehlawi rh By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

Sunday 26 July 2015

کاش ارشد و محمود کا ملن ہو جائے
مولانا ندیم احمد انصاری(ممبئی)

اس کائنات میں غور کرنے کے بعد یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اختلافات اس کائنات کی اصل خوب صورتی ہیں۔ یہاں مخلوقات کی جنس میں اختلاف ہے، ایک ہی سی مخلوقات کے مابین بھی اختلاف ہے، ان کے رہنے سہنے، چلنے پھرنے، بود و باش اور رنگ و آواز ہر چیز میں اختلاف ہے۔ انسان کی سوچ اور اس کی فکر میں اختلاف ہے اور ان کے کام کرنے کے انداز میں بھی اختلاف ہے۔ پھر یہ اختلافات کچھ مضر بھی نہیں جب تک کہ اپنی حدوں میں رہیں، ہاں جب یہ اپنی حدوں سے گزر جائیں اور آپسی اختلافات اس درجے پر پہنچ جائیں کہ انھیں افتراق کا نام دیا جانے لگے، تو اس کے مضر اثرات انسانی زندگی پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ یہ بات عام زندگی میں تو لوگ ایک حد تک سمجھتے ہیں اور اسی لیے آپسی اختلافات کو کسی نہ کسی درجے میں برداشت بھی کرتے ہیں لیکن جب بات دین و مذہب کی آتی ہے تو بعض کم فہم صلحِ کُل کی دعوت دینے لگتے ہیں اور ہر قسم کے اختلافات کو بالائے طاق رکھنے کے در پے ہوتے ہیں، جس سے ایک فریق کی شکل و صورت ہی مسخ ہو جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایسی بات نہیں جس کے لیے کوئی دانا راضی ہو سکے۔ علاوہ ازیں بعض اختلافات سیاسی و سماجی ہوتے ہیں، جن میں ایک شخص دوسرے سے مختلف سوچ رکھتا ہے اور ایک کی نظر میں فلاح و بہبود جس امر میں پوشیدہ ہوتی ہے، دوسرے کی نظر میں اس کے خلاف ہوتا ہے۔ بنا بریں فریقین میں رسہ کشی شروع ہو جاتی ہےاور معاملہ اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ مصالحت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ در اصل جھگڑا اس بات کا نہیں ہوتا کہ دنیا میں اختلافات ہیں بلکہ راقم کی ناقص فہم کے مطابق اصل جھگڑا اس بات کو لے کر ہوتا ہے کہ ہر آدمی اختلافات سے نمٹنے کا راستہ یہ نکالتا ہے کہ سامنے والا میری بات مان لے اور اپنا موقف چھوڑ دے۔ ظاہر ہے یہی بات مدِّ مقابل کے ذہن میں بھی رہتی ہے، نتیجۃً مصالحت کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔یہ سب باتیں جب تک عوام کی حد تک رہیں ، ان کو بہت زیادہ توجہ نہیں دی جا سکتی لیکن جب اہل علم اور علماء کے درمیان اس طرح کی باتیں ہونے لگیں تو یہ یقیناً تشویش کا باعث بن جاتی ہیں، اس لیے کہ پھر ان کے اثرات متعدی ہو جاتے ہیں جن کو روکنا مشکل ترین امر ہوتا ہے۔
اس مضمون اور تمہیدِ بالا کو صفحۂ قرطاس کرنے کا باعث جمعیۃ العلماء ہندسے متعلق مصالحت کی ایک خبر ہے، جو کہ گذشتہ دنوں نظر نواز ہوئی۔جمعیۃ العلماء ہند ملک کی قدیم مسلم جماعت ہے، جس کا اصل مقصد مظلوموں کو انصاف دلانا اور مسلمانوں کی نمائندگی کرنا ہے۔ یہ ایک ایسی جماعت ہے جس میں اکابر علماء کا خونِ جگر لگا ہے اور جس کی قیادت میں ان گنت خیر و فلاح کے کارنامے انجام پائے ہیںالبتہ مضمونِ ہٰذا میںاس مؤقر جماعت کی خدمات کا جائزہ لینا مقصود نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ تقریباً ۲۰۰۸ء سے جمعیۃ العلماء ہند بعض اختلافات کی بنا پر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور ایک حصہ مولانا سید ارشد مدنی اور دوسرا حصہ مولانا سید محمود مدنی کی طرف منسوب کیا جانے لگا۔ ہر دو نے اس دورانیہ میں بڑھ چڑھ کر مختلف النوع خدمات بھی انجام دیں لیکن اس بات سے انکار کرنا شاید کسی کے لیے ممکن نہیں کہ علاحدہ علاحدہ ہو جانے کے بعد ان دونوں میں سے کسی ایک کی آواز میں بھی پہلے جیسا وزن باقی نہ رہابلکہ بعض دفعہ تو ایسی خبریں بھی اخبارات کی زینت بنیں جن کا صدور علماء کی جماعت کو ہرگز زیب نہیں دیتا۔ ایک دوسرے کو زیر کرنے کی مختلف حرکتیں سامنے آئیں گو یہ سب بڑوں کی طرف سے نہ ہوں لیکن انھیں سے منسوب ہیں جنھیں اس جماعت کا رکن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان سب باتوں سے جہاں عوام کو اکابرین سے بدظنّی ہوئی وہیں علماء بھی آپس میں بٹ کر رہ گئے اور وہ جماعت جو مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لیے وجود میں آئی تھی، آپسی انتشار کا شکار ہو کر رہ گئی۔ ایسا نہیں کہ اس زمانے میں مصالحت کی کوششیں نہیں کی گئیں بلکہ مختلف طریقوں سے ان کے درمیاں حائل خلیج کو پاٹنے کی کوششیں بھی جاری رہیں لیکن سب بے سود۔
اس سال جب عید الفطر کا چاند نظر آیا اور لوگوں نے ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد پیش کی، اس موقع پر ان دونوں جماعتوں کے سر براہ یعنی مولانا سید ارشد مدنی اور مولانا سید محمود مدنی کی قربت بڑھی اور اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ۔۔۔جمعیۃ العلماء ہند میں گذشتہ ۸برسوں سے جاری اختلاف ختم ہونے کے قریب ہے۔۔خبر آئی کہ جمعیۃ کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کی موجودگی اور قاری سید محمد عثمان منصورپوری کی صدارت میں منعقدہ جمعیۃ مجلسِ عاملہ کی میٹنگ میں کچھ اہم قراردادیں منظور ہوئیں، جن میں سب سے اہم قرارداد مصالحت کی تھی۔ اس میٹنگ میں اختلافات کو دور کرنے کے لیے پیش کی گئی تجویز کی بھر پور تائید کی گئی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جلد ہی مولانا سید ارشد مدنی ماضی کی طرح مکمل طور پر غیر متنازع طریقے سے جمعیۃ العلماء ہند کی سربراہی کریں گے اور ان کی سرپرستی میں محمود مدنی قوم و ملت کے جمعیۃ کے مشن کو آگے بڑھائیں گے۔۔اس وقت ملکی، ملّی اور عالمی حالات اس بات کے شدید متقاضی ہیں کہ فریقین اختلافات کو ختم کرکے مصالحت کی راہ نکالیں۔۔اس سلسلے میں کافی بحث و تمحیص اور مختلف آرا پر غور کرنے کے بعد مجلسِ عاملہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ سردست فریقین میں اتحاد و مصالحت کے لیے یہ تجویز عمل میں لائی جائے کہ اختلافات کے آغاز کے وقت جو منتظمہ کے ارکان تھے، ان میں سے جو حضرات باحیات ہوں، ان کے فیصلے کو فریقین تسلیم کریں۔۔ ۔سچ پوچھیے تو ہمیں اس خبر سے نہایت شادمانی ہوئی۔ ہماری دلی تمنا ہے کہ یہ خواب جلد از جلد شرمندۂ تعبیر ہو، اس لیے کہ عید ملن پر گلے مل لینا اور آپس میں مبارک باد پیش کر دینا یقیناً اچھا شگون ہے لیکن منزل اس سے بہت آگے ہے،اصل بات تو جب ہے کہ ارشد و محمود کی طاقت ایک ساتھ ابھرے اور مسلمانوں کے کام آئے۔
جمعیۃ العلماء ہند ہو یا دیگر مسلم جماعتیں، ان میں جس قدر اتحاد ہوگا اتنا ہی مسلمانوں کو ان سے فایدہ پہنچے گا اور اس بات سے وہ خود بھی بخوبی واقف ہیں کہ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔ جمعیۃ العلماء ہند کے تو جھنڈے پر ہی لکھا ہوا ہے ’’ید اللہ علی الجماعۃ‘‘ پھر کیا بات ہے کہ ملک کے ایسے نازک حالات میں، اب تک اس جماعت نے مصالحت کر اتحاد قائم نہیں کیا۔ خدارا اب تو ہوش کے ناخن لیجیے کہ وطنِ عزیز میں مسلمانوں کی انگلیاں خواہ کتنی ہی مضبوط ہوں انھیں جب تک مٹھی کی شکل نہیں دی جائے گی، تب تک وہ دوسروں کی حفاظت تو کیا اپنی حفاظت میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ آپ جو بھی نیک کام کریں ہم ان کی قدر کرتے ہیںلیکن کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ آپسی اختلافات کے باوجود مصالحت کے لیے پیش قدمی کی جائے اور ملک و ملت کی خاطر ایک ہوا جائے تاکہ مسلمانوں کی شان و شوکت میں کچھ اضافہ ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ ان سب کے چلتے عوام میں اتحاد و محبت کا پیغام دینا مشکل ہو گیا ہے اور وہ پلٹ کر یہی کہتے ہیں کہ جب تمھارے بڑے ہی آپس میں ایک نہیں تو تم دوسروں کو کیا ایکتا کا پاٹھ پڑھاتے ہو! 

Tuesday 21 July 2015

Raaste ka haq
راستہ کا حق
آخر رمضان گزر ہی گیا
لیکن ہمیں اس کے پیغام اور سکھائے ہوئے سبق کو یاد رکھنا ضروری ہے

مولانا ندیم احمد انصاری(ممبئی)
تمام مہینوں کاسردار،ماہِ رمضان اپنی برکتیں اور رحمتیں سمیٹ کر آخر ہماری زندگیوں سے رخصت ہو ہی گیا۔اللہ تعالیٰ ہماری زندگیوں میں بار بار اس ماہ کو لائے اور ہمیں اس کی برکتوں اور رحمتوں کو سمیٹنے کی توفیق دیتا رہے۔آمین
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں ایک خاص نظام قایم کیا ہے،جس کے مطابق تمام چیزیں یکساں اور برابر درجے کی نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بعض مقامات کو بعض مقامات پر،بعض اوقات کو بعض اوقات پر،بعض دنوں کو بعض دنوں پر،بعض راتوں کو بعض راتوں پراور بعض مہینوں کوبعض مہینوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔بیت اللہ میں نماز پڑھناایک لاکھ نمازوں کے برابر ثواب رکھتا ہے۔(صحیح البخاری: ۱۱۹۰،ابن ماجہ:۱۴۰۶)مسجدِ نبویﷺ میں نماز پڑھنا پچاس ہزارنمازوں کے برابر ثواب رکھتا ہے۔(مسند أحمدابن حنبل:۱۶۰۵)عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتاہے۔(ترمذی:۷۴۹،مسلم:۱۱۶۲)شبِ قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔(سورۃ القدر:۳) رمضان تمام مہینوں کا سردار ہے۔(المعجم الکبیر للطبرانی:۸۹۰۷)اس میں نیکیوں کا ثواب ستر گنا تک بڑھا دیا جاتاہے۔اس ماہ میں کی گئی نفل عبادات ،دیگر ایام کے فرضوں کے برابر ثواب رکھتی ہے۔(ابن خزیمہ:۱۸۸۷)
یہ سب خدا کی رحمت ہے،جو اپنے بندوں پر بارش کے قطرات کی طرح برستی ہے۔یہاں غور کا مقام یہ ہے کہ دیگرمہینوں کے مقابلے میں اس ایک ماہ کو اتنی فضلت سے آخر کیوںنوازا گیا۔ذرا سی توجہ دیں تو یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نہایت ہی کریم ہے،وہ جانتا ہے کہ میرے بندے سال بھراس قدر مشقت برداشت نہیں کر سکتے،اس لیے اس نے صِرف ایک مہینے کو روزوںاور مخصوص احکامات کے لیے چُنا اور سال کے باقی گیارہ مہینوں میں حلال روزی اور حلال کھانے پینے کی اجازت دے دی۔
سال میں ایک مہینے کے روزے بھی اسی لیے فرض کیے گئے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے؛ (رمضان کے روزے فرض کیے گئے ہیں،بندوں کی) اس امیدپر کہ شاید وہ متقی اور پرہیزگار بن جائیں!(سورۃ البقرہ: ۱۸۳)یعنی اگر اس ایک ماہ میں انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے رسول کی کامل اتباع کر لی،اس مبارک مہینے میں خدا و رسول کا حکم سمجھ کر حلال چیزوں سے رُک گئے تو اب یہ امید کی جا سکتی ہے کہ باقی گیارہ مہینے خدا و رسول کی حرام کی ہوئی چیزوں سے رُک سکیں گےلیکن اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم کرے! ہم نے تو یہ سمجھ لیا کہ اس ایک مہینہ میں چوکچھ نیکی ہو سکے کرلو،اس کے بعد اللہ اللہ خیر سے اللہ ۔یاد رکھیے ایسا کرنا گویا کہ رمضان المبارک کی ناقدری کرنا ہے، اس لیے کہ رمضان المبارک کا مہینہ تو ہمیں تقوے کا سبق سکھانے آیا تھا، اس کے گزرتے ہی اس سبق کو بھول جانا ہرگز درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فقط ایک ماہ چند رسمی سی عبادتوں کے کر لینے سے ہم ساری ذمہ داریوں سے آزاد نہیں ہو سکتے!
’رمضان کے عبادت گزاروں‘ کو سال کے باقی گیارہ مہینوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے احکام پر عمل کرنا لازم ہے۔یہ نہیں کہ ستائیس رمضان ،یا چاند رات ،یا عید کی نماز تک اللہ اللہ کرکے اس کے بعدسنیما ہال میں جابیٹھیں،مسجدوں کو خیرباد کہہ دیں،جمعہ جمعہ نماز پڑھنے کو کافی سمجھیں۔یہ تو نہایت مہلِک شیطانی دھوکہ ہے۔نماز ہردن رات میں پانچ وقت فرض ہےلیکن کیا کیجیے ! رمضان میں تراویح اور تہجد پڑھنے والے بھی نہ جانے کتنے ہیں جو غیررمضان میں فرض نمازوں کی بھی پروا نہیں کرتے۔شاید انھیںشیطان یہ فریب دیتا ہے کہ اب تو تیرے گناہ معاف ہو گیے،’طاقت بھر رمضان میں عبادت بھی کر چکا‘اب ذرا دنیا کے کام کاج سنبھال۔پہلی بات تو یہ سوچنے کی ہے کہ ہم رمضان میں کتنی عبادت کرتے ہیں؟تراویح کی جلدی جلدی کچھ اُٹھک بیٹھک یا کھانے کا نظام دوپہر اور رات کی بجائے صبح و شام کو کرنے کے سوا ہماری زندگی میں اور کیا تبدیلی آتی ہے؟اگر آپ ایمان داری کے ساتھ اپنے معمولات کا جائزہ لیں گے،تو معلوم ہوگا کہ ہمیں رمضان بھر رمضان ،رمضان چِلّانےکے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
رمضان تو ہماری زندگیوں میں خوش گوار انقلاب لانے،اللہ تعالیٰ سے کمزور ہوئے ہمارے رشتے کو مضبوط کرنے ،ہمارے گناہوں کو جلاکر خاکستر کرنے،ہمارے سینوں میں غریبوں اوربھوکوں کے درد کا احساس پیدا کرنے …کے لیے آیا تھا۔ رمضان ہمیں یہ سبق دینے کے لیے آیا تھا کہ جس طرح ہم رمضان میں حلال روزی سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی خاطر مقررہ وقت میں رُکے رہے،اسی طرح سال کے باقی گیارہ مہینے بھی اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے رُکے رہیں۔جس طرح روزے کی حالت میں ہم نے اپنی بیوی سے اپنی ضرورت پوری نہیں کی،اسی طرح سال کے باقی گیارہ مہینوں میں کسی حرام جگہ میں اپنی شہوت پوری نہ کریں۔جس طرح ہم رمضان میں نیند کے غلبہ کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے دست بستہ کھڑے رہے،اسی طرح رمضان کے علاوہ بھی، جب اللہ تعالیٰ کا منادی ہمیں آواز دے،تو ہم بستروں سے اٹھ کھڑے ہوںگے۔رمضان ہمیں یہ پیغام دینے آیا تھاکہ جس طرح ہم رمضان میںرات ودن، اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہے،اسی طرح ہماری پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی یاد میں بَسرہولیکن ہمارا حال یہ ہے کہ جس طرح آج کے نام نہاد مدرسہ وکالج سے فارغ التحصیل طلباء کتابوں کی طرف رُخ کرنا پسند نہیں کرتے،ایسے ہی ہم رمضان کے بعد مسجد کا رُخ کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ ہم رمضان المبارک کو اللہ تعالیٰ کے حکم اور انعام کے طور پر نہیں گزارتے بلکہ ایک تہوار کی طرح گزارتے ہیں،جب کہ رمضان کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے اختتام پر زندگیوں کا رُخ صحیح ہو جائے۔رمضان میں ایک ماہ تک تقویٰ کا کورس کرنے والوں کو اگر اس کے گزرنے کے بعد اُس کا سکھایا ہوا سبق یاد نہ رہے، تو یہ تو ایسا ہے کہ یہ پورا کورس ہی بے فائدہ رہا۔اس لیےاب رمضان المبارک تو گزر گیالیکن ہمیں اس کا دیا ہوا سبق یاد رکھنا ہے ،اللہ تعالیٰ ہمارے روزوں کو قبول فرمائے،ہماری تراویح کو قبول فرمائے،ہماری نیکیوں کو قبول فرمائےاور ہم سب کو صحیح سمجھ نصیب فرمائے۔آمین
(مضمون نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے ڈائریکٹر ہیں)

آخر رمضان گزر ہی گیا از مولانا ندیم احمد انصاری
Akhir Ramazaan guzar hi gaya By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

وضو میں اسراف نہ کریں از مولانا ندیم احمد انصاری
Wuzu mein israaf na karien By Maulana Nadeem Ahmed Ansari