Saturday 20 June 2015


ہے وہی اللہ، بارش آسماں سے جس نے کی
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
جمعرات و جمعہ (۱۸؍۱۹جون ۲۰۱۵ء) کو ممبئی و مضافات میں موسلادھار بارش سے جیسے زندگی تھم سی گئی، لائف لائن کہی جانے والی لوکل ٹرینوں کی خدمات منسوخ ہونے سے ہزاروں مسافر جہاں تھے وہیں پھنس رہ گئے،زبردست بارش سے ٹریفک بھی متاثر ہوئی اور طیاروں کے نظام میں بھی گڑبڑی آئی۔ محکمۂ موسمیات نے آئندہ۴۸؍گھنٹوں میں بھاری بارش جاری رہنے کی خبر د ی تھی، اس لیے ممبئی والوں کو سنیچر واتوار کی چھٹیاں گھر میں بیٹھ کر ہی خرچ کرنی پڑ سکتی ہیں۔ شہر کے تمام اسکولوں کو بھی بند کر دیا گیا ہے اور بعض امتحانات تک منسوخ کر کردیے گئے ۔ بارش کی وجہ سے ممبئی کے اکثر علاقوں میں پانی بھرگیا اور  ریاست کے وزیر اعلی نے لوگوں کو سمندر کے کناروں سے دور رہنے کی ہدایت دی۔محکمۂ موسمیات کے مطابق گزشتہ۲۴؍ گھنٹوں کے دوران (۱۹؍جون کی   صبح آٹھ بجے تک) شہر میں۱۸۸؍ ملی میٹراور مشرقی مضافات میں۱۵۵؍ ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔
بے شک اللہ ہی ہے،جو آسمان سے بارش کرتا ہے، جس میں جانداروں کے لیے زندگی کا سامان ہے۔بارش حیوانات کی زندگی کے لیے نہایت ہی ضروی ہے، اسی کے ذریعے حیوانات کے رزق کا انتظام ہوتا ہے۔ بارش نہ ہو تو سوکھا پڑ جاتا ہے اور انسان اور جانور سب پیاس سے تڑپنے لگتے ہیں لیکن یہی بارش اگر مقدار میں ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو بھی انسانی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے، کہیں سیلاب آتے ہیں تو کہیں فصلیں اجڑ جاتی ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی ذات ہے،جو تمام کائنات کی پالن ہار ہے،جس کے قبضہ ٔ قدرت میں زمین وآسمان کے خزانے ہیں،جس کی اجازت کے بغیر کسی درخت کا کوئی پتہ نہیں ہلتا۔وہی ہے جس نے اس عالم ِرنگ و بو کو وجود بخشا،اسی کے لطف وکرم سے کائنات کا نظام چل رہا ہے اور وہ جب چاہے گا،آن کی آن میں سب تہہ و بالا کر دے گا۔کون ہے جو اس کے سامنے لب کُشائی کرے؟ کون ہے جو اس سے وجہ طلب کرے؟ کون ہے جو اس کی قدرت کا ادراک کر سکے؟ اس کائنات میں ایسا کوئی نہیں، اس لیے کہ وہ خالق ہے،باقی سب مخلوق ہیں،وہ مالک ہے،باقی سب مملوک ہیں،وہ غنی ہے،باقی سب فقیر ہیں۔وہ جب چاہتا ہے،جہاں چاہتا ہے،جو چاہتا ہے،جیسے چاہتا ہے،کرتا ہے۔اسے اس کا حق بھی ہے اور قدرت بھی۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاءَ بِنَاءً وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ  مَاءً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّکُمْ،  فَلاَ  تَجْعَلُوْا  لِلّٰہِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ}۔
(یعنی اللہ تعالیٰ ربِّ کائنات ہے اور ربّ وہ ہے) جس نے تمھارے لیے زمین کو فرش بنایااور آسمان کو چھت اور آسمان سے پانی برسایا،پھر اس پانی کے ذریعے عدم سے تمھارے لیے پھلوں کی غذا نکالی۔تو اب تو اللہ کا مقابل نہ ٹھہراؤ اور تم جانتے بوجھتے ہو۔(سورۃ البقرۃ:۲۲)
یہاں ان آفاقی نعمتوں کا ذکر فرماکر تمام اقسامِ نعمت کا احاطہ فرمایا گیاہے۔ان آفاقی نعمتوں میں سے زمین کی پیدائش کا ذکر ہے کہ اس کو انسان کے لیے فرش بنا دیا۔نہ پانی کی طرح نرم ہے،جس پر قرار نہ ہو سکے اور نہ لوہے،پتھرکی طرح سخت کہ اسے آسانی سے استعمال نہ کر سکیں بلکہ نرمی اور سختی کے درمیان ایسا بنایا گیا،جو عام انسانی ضروریات ِ زندگی میں کام آ سکے۔دوسری نعمت یہ کہ آسمان کو ایک مزین اور نظر فریب چھت بنا دیا۔تیسری نعمت یہ ہے کہ آسمان سے پانی برسایا،آسمان سے پانی برسانے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ بادل کا واسطہ درمیان میں نہ ہو بلکہ محاورات میں ہر اوپر سے آنے والی چیز کو آسمان سے آنے والا کہتے ہیں۔چوتھی نعمت اس پانی کے ذریعے پھل پیدا کرنا اور پھلوں سے انسان کی غذاپیدا کرنا ہے۔ پروردگار کی مذکورہ چار صفات میں سے پہلی تین تو ایسی ہیں کہ ان میں انسان کی سعی وعمل تو کیا خود اس کے وجود کو بھی دخل نہیں۔ بے چارے انسان کا نام ونشان بھی نہیں تھا،جب زمین وآسمان پیدا ہو چکے تھے اور بادل وبارش اپنا کام کر رہے تھے۔(ماخوذ از معارف القرآن:۱؍۱۳۶-۱۳۵)
اس تمہید کو غور سے پڑھیے اور غور کیجیے کہ آخر اس کائنات میں انسان کا کیا عمل دخل ہے؟ آپ کو جواب نفی میں ملے گا۔لیکن کیا کیجیے! اس کے باوجود انسان کی جہالت و غرور کا یہ عالم ہے کہ اتراتا پھرتا ہے، اس قادرِ مطلق رب کی نافرمانی کرتا ہے، پھر اپنے منصوبے بناتا ہے اور قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور قدرت سے چھیڑ چھاڑ ہی کا تو نتیجہ ہے کہ یا تو بارش کے موسم میں بارش نہیں ہوتی اورجب ہوتی ہے تو اس قدر کہ انسانی زندگی کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔خیال رہے ،اللہ تعالیٰ اس کائنات کو تباہ نہیں کرنا چاہتے،یہ تو ہمارے اعمالِ بد ہیں،جن کے باعث ہمارے ساتھ یہ حادثات پیش آتے ہیں۔تقریباًدو مہینوں سے اخبارات میں یہ بات بار بار آرہی تھی کہ اس سال بارش نہ ہونے کے سبب پانی کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی ،سوکھا پڑنے کا اندیشہ تھاوغیرہ وغیرہ۔ اب دیکھیے دو تین دن میں ہی اتنا پانی برس گیا کہ انسان کہتے ہیں کہ پریشان ہو گئے۔ تا دمِ تحریرممبئی میں زبردست بارش کا سلسلہ جاری ہے۔
اس وقت مضمون نگار اپنے قارئین کو اسی جانب متوجہ کرنا چاہتا ہے کہ یہ سب بلا سبب نہیں،اس کے پیچھے ہمارے اعمال ِ بد کی سیاہی ہے،اس لیے ہمیں ایسے موقعوں پر اپنے رب سے اپنابگڑا رشتہ استوار کرنے کی ضروت ہے۔قربان جائیے رسول اللہﷺ کے!اُفق پر بادل چھا جانے پربھی آپﷺ کے چہرۂ انور کارنگ متغیر ہوجاتا تھا،آپ بے چینی سے اندر باہر آنے جانے لگتے تھے، اس لیے کہ پہلے بھی ایک قوم پر بادل چھا جانے کے بعد اس میں سے پانی کی بجائے آگ کی بارش ہوئی تھی۔ اس لیے حضرت نبی کریمﷺ بے چین رہتے تھے۔(مسلم:۲۰۸۴) جو ہوائیں بارش کے آنے کی خبر دیتی ہیں،انھیں محسوس کر کے آپﷺ یہ دعا پڑھتے:
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ خَیْرَہَا، وَخَیْرَ مَا فِیہْاَ، وَخَیْرَ مَا اُرْسِلَتْ بِہٖ، وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّہَا، وَشَرِّ مَا فِیْہَا، وَشَرِّ مَا اُرْسِلَتْ بِہٖ۔(مسلم:۲۰۸۵)
 اے اللہ! میں آپ سے اس کی خیر وبرکت کا اور جو کچھ اس میں ہے،اس کی خیر وبرکت کا اور جس چیز کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے،اس کی خیر وبرکت کا سوال کرتا ہوں اور اس کے شر سے اور جو اس کے اندر ہے اس سے او رجس چیز کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے،اس کے شر سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔
جب بارش ہونے لگتی تو آپ یہ دعا فرماتے:
اَللّٰہُمَّ صَیِّباً نَافِعاً۔(بخاری:۱۰۳۲)
اے اللہ ! خوب برسنے اور نفع دینے والی بارش برسا۔
جب آپﷺ بارش سے خطرہ محسوس فرماتے تو اس طرح دعا فرماتے:
اَللّٰہُمَّ حَوَالَیْنَا وَلَا عَلَیْنَا، اَللّٰہُمَّ عَلَی الْآکَامِ وَالظَّرَابِ وَبُطُوْنِ الْأوْدِیَۃِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ۔(بخاری:۱۰۱۴)
اے اللہ! ہمارے اردگرد (بارش برسا تاکہ ہماری ضرورت پوری ہو جائے)،ہم پر نہ برسا(کہ ہمارے کام کاج ٹھپ ہو جائیں) ۔اے اللہ! پہاڑوں اور وادیوںپر،جنگلوں اور ندی نالیوں پراور درخت اگنے کے مقامات پر بارش برسا۔
کبھی تیز ہوا کے چلنے پر آپﷺ گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے اوراس طرح دعا فرماتے:
اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہَا رَحْمَۃً وَلَا تَجْعَلْہَا عَذَاباً، اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہَا رِیَاحاً وَّلاَ تَجْعَلْہَا رِیْحاً۔(الأذکار:۴۷۱)
اے اللہ ! آپ اسے رحمت بنائیے، عذاب مت بنائیے، اے اللہ ! آپ اسے (مبارک مینہ کا پیش خیمہ اور)مفید بنائیے، بے فائدہ مت بنائیے۔
ظاہر ہے اس طرح جو بارش ہوگی وہ انسان کے مفاد میں ہوگی لیکن کیا ہم نے بھی کبھی اس طرح اللہ تعالیٰ سے مانگا ہے؟پھر شکوہ کیوں ہے کہ یہ بارش ہمارے لیے زحمت بن گئی!بارش جیسی عظیم نعمت ہماری غفلتوں کی وجہ سے اعتدال سے زیادہ ہوتی ہے،تو ہم اسے کوسنے لگتے ہیں،خیال رکھیے رسول اللہ ﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمایاہے بلکہ فرمایا ایسا کرنے سے فقر وفاقہ آتاہے۔(الأذکار:۴۶۷)

 اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے معاملات کا حل بارگاہ ِ الٰہی میں تلاش کریں اوراس کے لیے نبوی طریقہ اپنائیں۔ویسے بھی اس وقت پورے عالم کے جو حالات ہیں،ان میں اس بات کی اشدّ ضروت ہے کہ ہم اللہ کی رحمت کی چادر میں پناہ گزیں ہوں،تاکہ ہمیں امن ملے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں تاکہ امن کی ہوائیں عام ہوں۔واللہ الموفق

Thursday 18 June 2015


رمضان المبارک سےمتعلق چند غلط باتیں
افادات: مولانا اشرف علی تھانویؒ
تدوین و اضافہ: مولانا ندیم احمد انصاری (ممبئی)
حفاظ کی عادت ہے، اپنا قرآن سُنا کر دوسرے حفاظ کا سنتے پھرتے ہیں۔ ہر چند کہ قرآن مجید کا سُننا اور اس کے لیے جانا بہت خوبی کی بات ہے، مگر ان حضرات کی اکثریت یہ ہوتی ہے کہ اس کی غلطی پر مطلع ہو کر اس کی فضیحت کریںگے، ظاہر ہے کہ کسی مسلمان کی عیب جوئی کرنا خود حرام ہے، قرآن وحدیث میں اس کی حرمت موجود ہے، پھر اس کو رُسوا کرنا، یہ دوسرا گناہ ہے اور گناہ کے ارادے سے چلنا، کہیں جانا، یہ بھی گناہ ہےالبتہ اگر صرف برکاتِ قرآنی حاصل کرنے کے لیے جائیں یا کسی خوش آواز کا [قرآن ]سن کر دل ہی خوش کرنا مقصود ہوتو مضایقہ نہیں، پہلی ضرورت عبادت، دوسری مباح ہوگی۔ (اصلاح الرسوم: ۱۴۵)
بعض لوگ اس پر یہ طرّہ کرتے ہیں کہ دوسری جگہ کھنکارتے پھرتے ہیں، کہیں لکڑیا زمین پر یا دیوار پر مارتےہیں یا مختلف طریقوں سے اپنی تشریف آوری کی اطلاع دیتے ہیں، جس سے پڑھنے والا پریشان ہو کر بھولنے لگے، ظاہر ہے کہ کسی عبادت میں خلل ڈالنا خود شیطان کا کام ہے۔ بعضے نماز میں شریک ہو کر قصداً غلط بتلانا شروع کرتے ہیں ااور اس کے یاد اور عدمِ یاد کا امتحان لیتے ہیں۔۔یہ سب گناہ کی باتیں ہیں اگر کہیں سننے کے لیے جائے[تو] چپکے سے جاکر یا تو بیٹھ جائے یا بہتر ہے [کہ] نماز میں شریک ہو جائے اور جب مقصود حاصل ہو جائے، اسی طرح واپس آجائے۔ (اصلاح الرسوم: ۱۴۶)
قرآن مجید جلد ختم کرنے کو یا بہت سے قرآن ختم کرنے کو فخر سمجھتے ہیں اور اس مقصود کو حاصل کرنے کی غرض سے خوب تیز پڑھتے ہیںکہ حروف بھی صاف ادا نہیں ہوتے، قرآن مجید میں ترتیل کو فرض فرمایا ہے، خود اس فرض کا ترک کرنا موجبِ گناہ ہے، خاص کر جب ریا و نمود و فخر کے لیے ہو تو مضاعف (دوگنا) گناہ ہے۔ بعض اس قدر تیز پڑھتے ہیں کہ مقتدی گھبرا جاتے ہیں۔ حدیث میں امام کو تخفیفِ صلوٰۃ (نماز کو ہلکا پڑھانے) کا حکم آیا ہے، اس میں اس حکم کا ترک لازم آتا ہے، یہ بھی برا ہے۔ غرض مقتدیوں کے تحمل کے بقدر پڑھنا چاہیے اور صاف صاف، گو کئی ختم نہ ہوں۔(اصلاح الرسوم: ۱۴۶)
بعض حفاظ کی عادت ہے کہ اُجرت لے کر قرآن مجید سناتے ہیں، [جب کہ] طاعت پر اُجرت لینا حرام ہے، اسی طرح دینا بھی حرام ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے پہلے سے مقرر نہیں کیا، اس لیے یہ معاوضہ نہیں ہوا، جواب [اس کا ]یہ ہے کہ گو پہلے سے نہیں ٹھیرایا [لیکن] نیت تو دونوں کی یہی ہے اور نیت بھی مرتبۂ خطرہ و خیال میں نہیں بلکہ مرتبۂ عزم میں۔ اگر کسی طور سے یہ معلوم ہو جائے کہ یہاں کچھ وصول نہ ہوگا، تو ہرگز ہرگز وہاں پڑھیں نہیں اور فقہ کا قاعدہ ہے کہ معروف مثل مشروط کے ہے، جب اس کا رواج ہو گیا اور دونوں کی نیت یہی ہے تو بلا شک وہ معاوضہ ہے ۔بعض لوگ کہتےہیں کہ صاحب بلا اجرت پڑھنے والا تو ہم کو ملتا ہی نہیں اور اجرت دے کر سُننا جائز نہیں تو پھر قرآن کیسے سنیں؟ جواب [اس کا] یہ ہے کہ پورا قرآن سننا فرض نہیں، ایک امرِ مستحب کے لیے حرام کا مرتکب ہونا، ہر گز جائز نہیں۔ الم ترکیف سے تراویح پڑھ لو، ایسی حالت میں قرآن مجید کا ختم ہونا ضروری نہیں۔(اصلاح الرسوم: ۱۴۷)
بعض حفاظ کی عادت ہے کہ لیلۃ القدر میں یا اور کسی شب میں سب جمع ہو کر ایک یا کئی شخص مل کر قرآن مجید ختم کرتے ہیں اور عُرف میں اس کو’ شبینہ‘ کہتے ہیں۔ اول تو بعض علماء نے ایک شب میں قرآن مجید ختم کرنے کو مکروہ کہا ہے، کیوں کہ اس میں ترتیل و تدبیر کا موقع نہیں ملتا، مگر چوں کہ سلفِ صالحین سے ایک رو ز میں ختم کرنا بلکہ بعض سے کئی کئی ختم کرنا منقول ہے، اس لیے اس میں گنجائش ہو سکتی ہے، مگر اس میں اور بہت سے مفاسد شامل ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے یہ عمل ’شبینہ‘ کا مروج طریقے پر بلا شک مکروہ ہے۔(اصلاح الرسوم: ۱۴۷)
ختم کے روز اکثر مساجد میں معمول ہے کہ شیرینی تقسیم ہوتی ہے، ہر چند کہ قرآن مجید کا ختم ہونا نعمتِ عظمیٰ ہے، جس کے شکریہ اور فرحت میں کوئی چیز تقسیم کرنا بہت خوب امر ہے، مگر اس میں بھی بہت سی خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں[جو کہ مندرجۂ ذیل ہیں] ؛ (۱) چوں کہ اس کا عام رواج ہو گیا ہے، حتیّٰ کہ اگر شیرینی تقسیم نہ ہو تو عام لوگ ملامت و طعن کرتے ہیں، اس لیے تقسیم کرنے والوں کی نیت اکثر اچھی نہیں رہتی، اس الزام سے بچنے کے لیے لا محالہ تقسیم کرتے ہیں، خواہ گنجائش ہو یا نہ ہو۔ بعض اوقات تردّد کرنا پڑتا ہے، مگر یہی خیال ہوتا ہے کہ بھلا کیسے تقسیم نہ ہو، لوگ کیا کہیں گے اور ریا و تفاخر کا حرام ہونا اور اس نیت سے جو فعل ہو ۔۔وہ معصیت ہے۔(اصلاح الرسوم: ۱۴۸)
اکثر جگہ چندے سے شیرینی آتی ہے اور اہلِ محلّہ اور نمازیوں سے جبراً چندہ لیا جاتا ہے اور یہ بھی جبر ہے کہ ان کو مجمع میں شرمایا جائے یا ایسا شخص مانگنے [کے لیے] اٹھے، جس کی وجاہت کا اثر پڑے، چوں کہ حدیث میں وارد ہے کہ کسی مسلمان کا مال بلا اس کی طیبِ خاطر کےحلال نہیں، اس لیے ایسے چندے سے جو چیز خریدی جائے گی، سب ناجائز ہے۔(اصلاح الرسوم: ۱۴۸)
بعض لوگ شبِ قدر میں مسجد وغیرہ میں جمع ہو کر شب بے داری کا خاص اہتمام کرتے ہیں، یہ مکروہ ہے۔ اتفاقاً اگر دوچار آدمی جمع ہوجائیںوہ اور بات ہے، غرض بطور خود ہر شخص حسبِ ہمت عبادت میں مشغول رہے، خاص اہتمام اور انتظام خلافِ شرع ہے۔(اصلاح الرسوم: ۱۵۰)
alfalahislamicfoundation@gmail.com




رمضان المبارک سے متعلق چند غلط باتیں از مولانا ندیم احمد انصاری
Ramazaanul mubarak se mutalliq chand ghalat baatien By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

Monday 15 June 2015


یوگا کے نام پر کیا کیا ہوگا از مولانا ندیم احمد انصاری
Yoga ke naam par kya kya hoga By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، ممبئی، انڈیا کے دار الافتاء کا افتتاح
Al Falah Islamic Foundation, Mumbai, India ke Darul Ifta ka inauguration

Tuesday 9 June 2015


بالآخر حج کمیٹی نے اپنا خلافِ شریعت فیصؒہ واپس لے لیا از مولانا ندیم احمد انصاری
Bil aakhir Hajj committee ne apna khilaf-e-shari'at faisla wapis le liya

Sunday 7 June 2015

صرف زبانی جمع خرچ کافی نہیں از مولانا ندیم احمد انصاری
Sirf zabani jama kharch kafi nahi By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

Friday 5 June 2015

صرف زبانی جمع خرچ کافی نہیں!
مولانا ندیم احمد انصاری (ممبئی)

وطن عزیز ہندوستان میں ایک عرصے سے مذہبی منافرت کو کچھ اس طرح ہوا دی جا رہی ہے کہ ہر ایک تو اس کا ادراک بھی نہیں کر پاتا، ہاں اہلِ نظر ضرور اس سے تشویش میں مبتلا ہیں، خواہ مسلمان ہوں یا ہندو۔ اکثریت کی نسلِ نو کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ اس ملک کے کرتا دھرتا تم ہی ہو اور جو اقلیتیں یہاں آباد ہیں، وہ فقط تمھاری مرہونِ منت ہیں اور ساتھ ہی اقلیتوں کو اس خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر تم اس ملک میں رہنا چاہتے ہو تو تم پر لازم ہے کہ اپنے مذہب و امتیاز کو طاق میں رکھ دو اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو اپنےاس ملک کو خیر باد کہہ کر کہیں اور چلے جاؤ، ظاہر ہے کہ یہ ساری باتیں ہمارے ملک کی گنگا جمنی روایت و سیکولر آئین کے خلاف ہیں لیکن افسوس کہ ایسا کہنے والوں کی ایسی کوئی باز پرس نہیں کی جاتی کہ آیندہ کے لیے وہ اس سے تائب ہو جائیں۔ چند دن خبروں میں شائع ہونے کے بعد ان کی ان حرکتوں کو بھلا دیا جاتا ہےیااس سے بڑے کسی نئے واقعے کے باعث انھیں بھلا دینا پڑتا ہے۔ یہ ایک سیکولر ملک کی حکومت کی ذمے داری بنتی ہےکہ وہ ہر ایسی بات پر نوٹس لے جس سے ملک کی سالمیت خطرے میں پڑے اور اقلیت واکثریت کے بیچ  خلیج حائل ہو لیکن ہمیں بلند بانگ دعوے کرنے والی حکومت کی اس جانب کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔
گذشتہ دنوں وزیر اعظم نریندر مودی نے یو این آئی کو دیے ایک تازہ انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کی حکومت اقلیتوں کے خلاف حملے برداشت نہیں کرے گی اور ملک میں کسی کمیونٹی کے تئیں امتیازی سلو ک برداشت نہیں کیا جائے گا، ہمارے ملک کا آئین سب کو مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ما قبل میں سنگھ پریوارکےبعض لیڈروں کی جانب سے اقلیتی طبقے کے مخالفت میں جو بیان دیے گئے ہیں وہ غیرضروری تھے۔ وزیر اعظم نے جس طرح ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنی بات کہی اس سے فایدہ اٹھاتے ہوئے جہاں سنگھ پریوار نے یہ کہہ کر کنارہ کر لیا ہے کہ وزیر اعظم کا اشارہ ہماری طر ف نہیں ہے، وہیں آرایس ایس کا کہنا ہے کہ وہ تو راشٹریہ سیوک سنگھ ہے،سنگھ پریوارنہیں،جب کہ اقلیتوں کا زور اس بات پر ہے کہ خودبی جے پی کے لیڈران بھی اس فرقہ پرستی کوہوادینے میں مصروف ہیں، جس پر وزیراعظم کوئی کاروائی نہیں کررہے ہیں ۔ان کی بات بھی درست ہے، اس لیے کہ مسلسل متنازعہ بیانات دینے والے؛گری راج اورسادھوی نرنجن جیوتی،مینکاگاندھی اورمختارعباس نقوی جیسے لیڈان اب بھی کابینہ میں موجود ہیں۔ان پر ان کے متنازعہ بیانات کے باوجود کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی اور نہ ان کے اقتدار میں کوئی فرق آیا۔جب کہ ان سب سے اقلیتی طبقے میں ایک گو نا احساسِ عدمِ تحفظ بڑھ رہا ہے، جس پر یہ سوال رفع ہوتاہے کہ اس طرح کی بیان بازیاں کرنے والوں پر کوئی نوٹس کیوں نہیں لیا جا رہا ہے؟
 ایک طرف وزیر اعظم کا یہ بیان گزشتہ ایک سال کے دوران اشتعال انگیز بیانات دینے والوں کے لیے ایک سخت پیغام سمجھا جا رہا ہے، دوسری طرف ہم جیسوں کے لیے اسے صرف زبانی جمع خرچ سمجھنے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ جب سے مودی سرکار بر سر اقتدار آئی ہے تب سے مذہبی مقامات پر حملے اور بی جے پی و سنگھ پریوار سے وابستہ لیڈروں کی اشتعال انگیز بیان بازیاں تسلسل کے ساتھ جاری ہیں، جس کی وجہ سے مو د ی سرکار کو کافی تنقیدوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا رہا ہے لیکن ان سب کے باوجود کوئی قابلِ قدر اصلاح اب تک سامنے نہیں آئی ہے۔ اس پس منظر میں کیا وزیر اعظم اپنے اس تازہ ترین انٹرویو کے ذریعے اسی بگڑتی شبیہ کو سنوارنے کی کوشش تو نہیں کر رہے؟ہاں اگر وہ واقعی اپنی بات میں خلوص رکھتے ہیں تو ہم ان کے اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں ، جب کہ وہ اس جانب جلد ہی کوئی عملی پیش قدمی بھی کریں،ورنہ تو ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں کہ اس بیان کو محض زبانی جمع خرچ پر محمول کریں۔ یہ فقط ان کی زبان کا ہنر ہی سمجھا جائے گا، جس سے وہ ایک تاثر دینادینا چاہتے، جس میں وہ کامیاب نہیں ہیں۔وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ اچھے دن آ چکے ہیں لیکن کچھ لوگ ہمارے کاموں کو خراب کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ان کی اس بات کو ماننے کے لیے بھی ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں، اس لیے کہ ہمارے مشاہدے کے مطابق اس ایک سال میں جس قدر مہنگائی بڑھی ہے، جس قدر مذہبی منافرت کو ہوا دی گئی ہے، جس قدر اقلیت و اکثریت کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں، ان سب کو اچھے دنوں سے تعبیر کرنا کیسے ممکن ہے؟ اگر یہی اچھے دن ہیں، تو پھر برے دن کس کہتے ہیں؟ وزیر اعظم کی یہ بات درست ہے کہ اگر ملک کو ترقی کی راہ پر آگے لانا ہے تو فرقہ وارانہ منافرت کو ختم کرانا بے حد ضروری ہے، ویسے وہ زمانۂ انتخابات سے ہی ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کا نعرہ بھی بلند کرتے آئےہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک ملک کی اقلیتوں میں احساسِ تحفط پیدا نہ کیا جائے، جس کے لیے مناسب عملی اقدامات کی ضرورت ہے نہ کہ صرف بیان بازیوں کی۔
کُل ملا کر وزیر اعظم کے اس نئے بیان میں ہمیں کوئی نئی بات نظر نہیں آتی بلکہ یہ تو وہی راگ ہے، جسے وہ ایک سال سے الاپتے رہے  ہیں۔اب یا تو وہ اپنی پارٹی کے خلاف لب کشائی نہیں کرنا چاہتے یا وہ جس ملک کے وزیر اعظم ہیں اس سے زیادہ باہر رہنے کی وجہ سے ملک کی صحیح صورتِ حال سے واقف ہی نہیں لیکن پہلی صورت زیادہ قرینِ قیاس ہے۔
alfalahislamicfoundation@gmail.com

Thursday 4 June 2015

 حج کمیٹی آف انڈیا کا قابلِ ستائش اقدام
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
کہتے ہیں ’دیر آئے، درست آئے‘۔یہ جملہ اپنے معنوں میں حج کمیٹی آف انڈیا کے لیے اس وقت نہایت موزوں نظر آیا،جب حج کمیٹی نے ’قربانی کی لازمی فیس سے متعلق اپنا جبری فیصلہ‘ واپس لینے کا اعلان کیا۔گذشتہ دنوں حج کمیٹی آف انڈیا نے حج میں قربانی کی فیس لازمی قرار دے کر ایسا متنازعہ فیصلہ کیا تھا، جس پر مختلف مسلم تنظیموں، اہم شخصیتوں اور تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور اسے شریعت کے خلاف گر دانا تھا، اس کے خلاف میمورینڈم پیش کیے گئے تھے اور اس خلافِ شریعت فیصلے کو بدلنے پر زور دیا گیا تھا اور تو اور خود حج کمیٹی کے سابق صدر نے بھی اس غیر مناسب فیصلے کے خلاف میمورینڈم پیش کیا تھا۔ اہل قلم نے اس کی تردید میں مضامین و مقالات بھی تحریر کیے تھے اور اس بات کی کوشش کی گئی تھی کہ حج کمیٹی اپنے فیصلے پر نہ صرف نظرِ ثانی کرے بلکہ اس فیصلے کو واپس لے، جس کی اصل وجہ یہ تھی کہ قربانی، حج کمیٹی کی ذمے داری نہیں بلکہ ایک عازمِ حج کی ذاتی ذمے داری ہوتی ہے، لہٰذا حج کمیٹی کا اس کے ساتھ کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے، اگر کوئی متمتع یا قارن کسی عذر کی بنا پر قربانی پیش نہیں کرسکتاتو خود اللہ تعالیٰ نے اسے یہ اجازت دی ہے کہ وہ اس کے بدلے دس روزے رکھ لے، تین زمانۂ حج میں اور سات حج کے بعد اور مُفرِد پر تو یہ قربانی سرے سے لازم ہی نہیںبلکہ مستحب ہے، لہٰذا حج سے پہلے ہی قربانی کی لازمی فیس وصول کرنا سراسر ظلم اور زیادتی ہوتا،جسے فوری طور پر ختم کیا جانے کی مانگ کی جارہی تھی۔ اس مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حج کمیٹی نے جو رقم عازمین سے لینا طے کیا تھا، وہ عام قربانی کی قیمت سے زیادہ تھی یعنی اس سے کم رقم میں حاجی خود جانور خرید کر اپنی قربانی پیش کر سکتا تھا، جس کے باعث حج کمیٹی کو عبادت کو تجارت بنانے جیسے جملوں سے بھی مطعون ہونا پڑا۔
 بالآخر اس غلط فیصلے کے خلاف قلم اور آواز اٹھانے والوں کی محنت اس وقت ٹھکانے لگی جب حج کمیٹی نے یہ اعلان کیا کہ اب عازمینِ حج کو کوپن لوٹانے کی چھوٹ دی جائے گی اور اگر عازمینِ حج کسی وجہ سے حج کمیٹی کے زیر اہتمام قربانی نہ کرنا چاہیں، تو انھیں اس کا اختیار حاصل ہوگا۔یہ قابلِ ستائش امر ہے کہ(ایس این بی کے مطابق) اب حج کمیٹی نے نیا سرکولر نمبر ۲۱؍جاری کیا ہے، جس کے مطابق اول تو اب قربانی کا کوپن ۴۹۰؍کے بجائے ۴۷۵؍سعودی ریال میں فراہم کیا جائے گا، ساتھ ہی اگر عازمینِ حج ، حج کمیٹی کے زیر اہتمام قربانی نہ کرنا چاہیں اور کسی دوسرے کے توسط سےقربانی کریں تو وہ اپنا کوپن لوٹانے کے مجاز ہوں گے۔ اس سرکولر کے مطابق انھیں یہ کوپن دیا تو جائے گا لیکن اس اختیار کے ساتھ کے چاہے وہ اسے رکھیں یا لوٹا کر اس مد میں کٹی ہوئی رقم واپس لے لیں۔یہ ایک اچھی بات ہے کہ حج کمیٹی نے ایک غیر شرعی مسئلےسے توبہ کر لی اور اس معاملہ میں عازمینِ حج کو اختیار دے دیا، اب ان میں سے جو چاہے کمیٹی کی فراہم کردہ سہولت حاصل کرے اور جو چاہے اس سہولت سے انکار کر دے۔
 ہونا بھی یہی چاہیے، اس لیے کہ حج جیسی عبادت اور اسلام کا عظیم ترین رکن، جو کہ اصلاً صاحبِ استطاعت پر فرض ہوتا ہے لیکن اہلِ اسلام میں سے اکثر اس مبارک سفر کی ہمیشہ نہ صرف تمنائیں کرتے ہیں بلکہ اس کے لیے اپنے خون پسینے کی کمائی کو جوڑ جوڑ کر رکھتے ہیں، اگر اس فیصلے کو واپس نہ لیا جاتا تو ان توحید کے دیوانوں کے ساتھ یہ سراسر ظلم ہوتا۔ ویسے بھی سابقہ فیصلے کے مطابق حج کی ہر قسم پر یہ لازمی فیس دینا قرار پایا تھا، جب کہ حجِ افراد کرنے والے کے لیے قربانی محض مستحب ہے۔ہم اپنے ایک مضمون میں واضح کر چکے ہیں کہ اس کے علاوہ بھی اس فیصلے سے کئی خلافِ شرع امور پائے جانے کا خدشہ تھا، جو کہ خدا کا شکر ہے اطالاعات کے مطابق اب ٹل گیا۔
جس طرح اس غلط فیصلے کے خلاف صحیح طرز پر علماء اور عوام کی مخالفت سامنے آئی اور اس کا جو مثبت نتیجہ برآمد ہوا، اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اگر ہم حق کے لیے ، حق طریقے پر آواز اٹھانا سیکھ لیں، تو حق کو قائم کیا جا سکتا ہے، لیکن آج المیہ یہ ہے کہ ہم اس جانب کماحقہ توجہ نہیں دیتے، جس سے غلط سلط باتیں ہم پر تھوپ دی جاتی ہیں۔ ہم اگر واقعی کسی بھی طرح کی خوش گوار تبدیلیوں کے خواہاں ہیں، تو اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے مزاج و طریق میں خوش گوار تبدیلیاں لانی ہوں گی۔قرآن کریم میںہے: (ترجمہ)بے شک الله تعالیٰ کسی قوم کی حالت میں تغیر نہیں کرتا جب تک وہ لوگ خود اپنی حالت کو نہیں بدل دیتے۔(سورہ رعد: ۱۱)
حج کمیٹی آف انڈیا کا قابلِ ستائش اقدام از مولانا ندیم احمد انصاری
Hajj Committee ka qabil-e-sataish Iqdaam By Maulana Nadeem Ahmed Ansari
Awam mein Mashhoor chand ghalat baatien-8 By Maulana Nadeem Ahmed Ansari
عوام میں مشہور چند غلط باتیں -۸ از مولانا ندیم احمد انصاری 

Tuesday 2 June 2015

شبِ براءت یعنی گنہگاروں اور مجرموں کی بخشش اور جہنم سے چھٹکارے کی رات از مولانا ندیم احمد انصاری
شب براءت یعنی گنہگاروں کی مغفرت اور مجرموں کی بخشش کی رات از مولانا ندیم احمد انصاری
Shab-e-Bara'at Yaani Gunahgaaron ki maghfirat aur mujrimo ki bakhshish ki raat By Maulana Nadeem Ahmed Ansari
مبارک راتوں میں اجتماعی شب بےداری از مولانا ندیم احمد انصاری
Mubarak Raaton mein Ijtimayi Shab bedari By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

پندرھویں شعابن کا روزہ از مولانا ندیم احمد انصاری
Pandhrahwi Shabaan ka Roza By Maulana Nadeem Ahmed Ansari

Monday 1 June 2015

کیا ہماری نسلِ نو صحیح معنوں میں علم حاصل کر رہی ہے از مولانا ندیم احمد انصاری
Kya Hamari Nasl-e-Nau Sahih Manno mein Ilm hasil kar rahi hai ? By Maulana Nadeem Ahmed Ansari