Friday 24 February 2017

Zee News aur Tarek Fateh ke Tareek Khayalaat aur Hindustan ki Mushtarika tahzeeb par hamle

زی نیوز اور طارق فتح کی تاریک خیالی اور ہندوستانی مشترکہ تہذیب پر حملے


ندیم احمد انصاری





فی زمانہ میڈیا اور خصوصاً الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا دایرہ اتنا وسیع ہے کہ کوئی بھی اچھی یا بُری بات نہایت سُرعت کے ساتھ دور دراز بہ آسانی پہنچائی جا سکتی ہے، جس سے بد باطن یا شریر طبیعت کے لوگ جم کر اپنے مقاصد کو پورا کرتے ہیں اور اس کے مہنگا ہونے کے باعث شایدوہی لوگ اسے زیادہ استعمال میں لاپاتے ہیں۔شریف و اچھے کام کرنے والوں کو اوّل تو ان کے استعمال کا پورا طریقہ نہیں آتا، دوسرے وہ اس میں لگنے والا خرچ برداشت کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شریروں کی شرارت مزید کامیاب ہوجاتی ہے۔


زی نیوز جو اپنی بے ہودہ کارکردگی کے لیے زمانے بھر میں مشہور ہے ، گذشتہ کئی ہفتوں سے اس نے ہندوستانی مشترکہ تہذیب میں شگاف پیدا کرنے، ہندومسلم ایکتا میں بھنگ ڈالنے اور مسلمانوں کے نجی و معاشرتی مسائل میں ’کیڑے نکالنے‘ کی ذمے داری کینیڈا سے برآمد ایک پاکستانی نژاد کے سپرد کی ہے ،اور اس سے منسوب کر مستقل ایک شو جاری کیا ہے، جس کے ہر ایپسوڈ(episode) میں اسلامو فوبیا کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ پھوٹ ڈالو، راج کرو کو ایک بار پھر اس ملک میں ہوا دی جا رہی ہے، جس کے لیے یقیناً یہ چینل اور یہ شو پوری طرح ذمّے دار ہے۔ خانگی مسائل و حالات نے گذشتہ دنوں ہمیں اس طرف زیادہ توجہ دینے کی اجازت نہیں دی اور ویسے بھی اسلام دشمنی پر بے سر و پا باتیں بکنے والوں کے ہر سوال کا جواب دینا کچھ ضروری بھی نہیں، نیز بعض دردمند حضرات اس جانب متوجہ رہے، جس سے فرضِ کفایہ ادا ہوتا رہا۔


اب چند باتیں عرض کرتے ہیں۔ زمانے بھر میں اس ’کارنامے‘ کے لیے اس تاریک خیال شخص کو ہی زی نیوز نے کیوں چُنا، اس کا اشارہ اس شخص کے وکی پیڈیا میں درج حسبِ ذیل جملوں کو پڑھنے سے بھی ملتا ہے ، جس میں نہایت اختصار کے ساتھ درج ہے کہ ’’طارق فتح پاکستان نژاد کینیڈین مصنف۔۔۔اسلامی انتہا پسندی کے خلاف بولنے میں معروف ہیں، وہ برِصغیر کے مسلمانوں کی علاحدگی پسند ثقافت کے خلاف بھی کہتے رہتے ہیں۔۔۔ وہ اسلام کی اعتدال پسند اور ترقی پسند صورت کے حامی ہیں۔پاکستان کے خلاف تنقید، اسلامی بنیاد پرستی، تاریخ اور دیگر روایات پر بولنے کی وجہ سے ان کے خیالات اکثر بحث اور تنازعہ کا موضوع بن جاتے ہیں۔‘‘


درجِ بالا سطور سے بہ آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے بدنامِ زمانہ ٹی وی چینل زی نیوز کی نظرِ انتخاب اس شخص پر کیوں کر پڑی، کیوں اس نے اس پاکستانی نژاد کو گود لیا اور کیوں اس پر اعتماد کرکے لاکھوں کروڑوں خرچ کر مستقل ایک شو ’فتح کا فتویٰ‘ کے نام سے جاری کیا۔ظاہر ہے کہ زی نیوز کو پتا ہے کہ اس شخص کے تاریک خیالات کے مطابق اسلام و مسلمانوں میں ’مُلّا، کٹ مُلّا اور کٹر پنتھیوں‘ کی بہتات ہے ، جن کے خلاف بولنے میں یہ آدمی مہارت رکھتا ہے اور بہ قول اپنے ان چیزوں سے وہ سماج کو آزادی دلانا چاہتاہے۔ پہلے تو انھیں ان الفاظ ’مُلّا، کٹ مُلّا، کٹّر پنتھی‘ وغیرہ کی تعریف بیان کرنی چاہیے کہ وہ ان الفاظ کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں، دوسرے یہ بھی بتانے کی زحمت گوارا کرنی چاہیے کہ اس سے مُراد کون لوگ ہیں؟ اس لیے کہ عصری موضوعات پر چند کتابیں پڑھ لینے والے اس شخص کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اب عوام جاہل نہیں، اور اس سے بہت پڑھے لکھے لوگ دنیا میں موجود ہیں۔ اب تو ایک ہی شخص میں مختلف موضوعات سے متعلق دل چسپی کے تحت اتنا جاننے سمجھنے کا شوق موجود ہے کہ اس کے سامنے کوئی بھی کچھ بول کر اپنا اُلّو سیدھا نہیں کر سکتا۔ حیرت ہے کہ ایسے دور میں بھی اس دین و مذہب بے زار اس شخص کو ’فتوے‘ کی عظیم ترین خدمت تفویض کر دی گئی، جسے مذہبیات یا اسلامیات سے کوئی مسّ نہیں اور جو خود کو اسلام کے نازک مسائل و معاملات میں بلا سوچے سمجھے بولنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ میڈیا کا بھی عجیب دوغلاپن ہے کہ جس لفظِ ’فتویٰ‘ سے ان پر یوں تو بخار چھایا رہتا ہے،اور آج وہی لفظ انھوں نے اپنی شہرت کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ظاہر ہے کہ لوگوں کو گم راہ کرنے کے لیے اس طرح کا نام تجویز کیا گیا ہوگا، جب کہ فتویٰ فی زمانہ ایک خالص فقہی و اصطلاحی معنی میں ہی مستعمل ہے، جسے کسی اور معنی میں استعمال کرنا رائج نہیں۔


یہ بھی قابلِ غور ہے کہ زی نیوز نے جن تصاویر وغیرہ سے اس پروگرام کا افتتاح کیا اور اب تک جن موضوعات کو زیرِ بحث لایا گیا‘ وہ تمام ہی ایسے ہیں کہ جن میں دیانت کا پاس نہیں رکھا گیا،لیکن کیا کہیے کہ ان کا تو مقصد ہی اشتعال انگیزی معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اگر آپ کو اسلامی اصول و قوانین کی واقعی تفہیم درکار ہے تو اس کی آسان صورت یہ ہے کہ اہلِ علم سے استفسار کیا جائے، نیز اگر کسی غلط رسم و رواج کی اصلاح کا ہی آپ کے سینے میں درد اٹھا ہے تو حکمت و مصلحت کے ساتھ اکابرین کے طرز پر اس کا مداوا کیجیے، یا کم از کم اس شو میں ایسے افراد و مدعو کیجیے جو نازک معاملات و مسائل میں بولنے میں درک رکھتے ہوں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا، اس لیے کہ آپ کے دلوں میں مذہب و سماج کاکوئی درد ہے اور نہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب سے کوئی پیار۔ہم نے اب تک جتنی کلپس اس شو کی دیکھیں، اس سے واضح ہوا کہ کسی بھی اہم مسئلے پر اس میں کوئی قابلِ التفات بحث نہیں ہوسکی، ہاں عوام کو یہ باور کرانے کی مسلسل کوشش کی جاتی رہی کہ اسلامی نظام میں بہت سی باتیں ناقابلِ عمل ہیں، جس کی حقیقت پروپگینڈے سے زیادہ کچھ نہیں۔ اول فول بکنا اور کسی اہم مسئلے کو محض چھیڑ کر اس پر اہلِ علم کی رائے نہ لینا، ڈیٹا و معلومات رکھنے والوں کو شو میں مدعو نہ کرنا، جواب دے سکنے والوں کو موقع و وقت نہ دینا وغیرہ وغیرہ اس شو کا خاصہ ہے۔


کمال تو جب ہوا کہ زی نیوز کے اس گود لیے اس کینیڈین کو مال و شہرت کی ہوس اسٹوڈیو سے نکال کر جشنِ ریختہ تک لے آئی، جہاں اس کا ’تاریخی استقبال‘ ہوا۔استقبال کی کلپس دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ اس کے لیے مینٹلی پریپئر تھا، اس کے باوجود اب کہنایا کہلوانا شروع کر دیا کہ جشنِ ریختہ میں اس پر حملہ ہوا اور اسے کچھ غلط کہہ دیا گیا۔ پھر کیا تھا، زی نیوز نے چند ایک انٹرویو کیے جن میں یہ بات کہلوانے کی کوشش کی گئی کہ جس کی بات سے اتفاق نہ ہو تو اسے گالی دینا تو درست نہیں، لیکن یہ نہ سوچا کہ اول تو اس پر کوئی حملہ نہیں ہوا، جو کچھ وہاں ہوا‘ اسے حملے کا نام دینا تلبیس ہے، دوسرے گالی دینا ہم مانتے ہیں کہ مذہب و تہذیب کے خلاف ہے، لیکن مذہب جو کہ انتہائی حسـاس معاملہ ہے، اس میں اس قدر دروغ گوئی کے بعد اور کس طرح کے استقبال کی توقع کی جا سکتی ہے؟ پھر عوام کا وہ غصّہ تو پری پلان بھی نہیں تھا، جب آپ اپنی بکواس سے باز نہیں آتے، تو جن لوگوں کے جذبات آپ نے مجروح کیے ہیں، ان کے ری ایکشن کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ ہاںذاتی طور پر ہمارا خیال یہ ہے کہ اس معاملے میں جن لوگوں نے اس شریر کے خلاف ایف آئی درج کروائی اور جو لوگ ٹویٹر وغیرہ سوشل سائٹس پر اس کا جواب دے رہے ہیں، وہ طریقۂ احتجاج زیادہ مناسب ہے، لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ ہندوستانی مشترکہ تہذیب کبھی کسی مذہب اور اس کے ماننے والوں کے خلاف زہر افشانی کو برداشت نہیں کرتی، آپ سوا سو کروڑ ہندوستانیوں میں آگ لگانے اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے کے بعد بھی اگر ان سے حسنِ سلوک کی تمنا کرتے ہیں، تو آپ کی سمجھ میں کجی ہے!
nadeem@afif.in

http://afif.in/zee-news-aur-tarek-fateh-ke-tareek-khayalaat-aur-hindustan-ki-mushtarika-tahzeeb-par-hamle/

Sunday 19 February 2017

Intikhabi Muhim ke dus Munkiraat, Mufti Muhammad Taqi Usmani, Al Falah Islamic Foundation, India

انتخابی مہم کے دس منکرات، مفتی محمد تقی عثمانی، الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا




انتخابات کا ہنگامہ ہمارے معاشرے میں بے شمار گناہوں اور بد عنوانیوں کا ایسا طوفان لے کر آتا ہے کہ جس کی ظلمت پورے ماحول پر چھا جاتی ہے، اور اس میں شریعت، اخلاق، شرافت اور مروّت کی بنیادوں پر اتنی متواتر ضَربیں لگتی ہیں کہ پورا ملک لرز کر رہ جاتا ہے۔ ان گناہوں اور بدعنوانیوں کا انتہائی افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ دلوں سے ان گناہوں کے گناہ ہونے کا احساس بھی مٹتا جا رہا ہے اور اقتدار طلبی کی اس اندھی دوڑ میں سب کچھ شیرِ مادر بن کر رہ گیا ہے، اور چوں کہ معاشرے میں ان برائیوں کا چَلن کسی روک ٹوک کے بغیر اتنا عام ہو گیا ہے کہ اب کوئی ان برائیوں کے خلاف بولتا بھی نہیں، اس لیے ایسے حضرات کو بھی ان کے برا یا گناہ ہونے کا خیال ہی نہیں آتا‘ جن کی نیت جان بوجھ کر بُرائی کرنے کی نہیں ہوتی، لہٰذا اس وقت ایسی چند برائیوں کا ذکر اس جذبے سے کیا جا رہا ہے کہ جو اللہ کا بندہ ان سے بچ سکے، وہ بچ جائے اور دوسرے حضرات کے دل میں کم از کم ان کے گناہ اور برائی ہونے کا احساس پیدا ہو جائے۔
(۱)انتخابات کے تعلق سے جو گناہ اور منکرات ہمارے ماحول میں پھیلے ہوئے ہیں‘ان سب کی بنیادی جڑ تو اقتدار کی ہوس اور کسی منصب تک پہنچنے کی حرص ہے، جس کا جواز تلاش کرنے کے لیے بعض اوقات ملک و ملّت کی خیر خواہی کی معصوم تاویل کر لی جاتی ہے، حالاں کہ حکومت و اقتدار کے بارے میں قرآن و سنت کی ہدایات یہ ہیں کہ وہ کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے جس کی طرف لپکنے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کی جائے، بلکہ یہ دنیا و آخرت کی ذمّے داری کا وہ جُوا ہے جسے گردن پر رکھنے سے پہلے انسان کو لرزنا ضرور چاہیے، اور شدید مجبوری کے بغیر اپنے آپ کو اس آزمائش میں نہ ڈالنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے ان کے صاحب زادے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے نام زد کرنے کو کہا گیا تو انھوں نے ایک جواب یہ بھی دیا:
’’ذمّے داری کا طوق خطّاب کے خاندان میں بس ایک ہی شخص (یعنی خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کے گلے میں پڑ گیا تو کافی ہے، میں اپنے بیٹے کے گلے کو اس سے گراں بار کرنا نہیں چاہتا۔‘‘
اگر کسی شخص کے دل میں واقعۃً اس گراں بار ذمّے داری کا کما حقہ احساس ہو تو بے شک اس کا جائز ذرائع سے اقتدار تک پہنچنا ملک و ملّت کی خیر خواہی کے جذبے سے ہوتا ہے‘ جو اس کی ادا ادا سے جھلکتا ہے، اور اس کے نتیجے میں کبھی وہ خرابیاں، بد عنوانیاں اور گناہ وجود میں نہیں آتے‘ جن کے زہریلے اثرات سے آج کی سیاسی فضا مسموم ہے، لیکن جب اقتدار کو ایک منفعت، ایک لذّت اور ایک مادّی مفاد سمجھ لیا جائے اور اسے حاصل کرنے کے لیے تن من دھن کی ساری طاقتیں لُٹائی جانے لگیں تو یہ اقتدار کی وہ حرص ہے جس کے بطن سے خیر و فلاح بر آمد نہیں ہو سکتی، اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ گناہوں، برائیوں، خود غرضیوں اور بد عنوانیوں کو جنم دے کر معاشرے میں شر اور فساد کو پھیلاتا ہے۔
(۲)اسی شر و فساد کا ایک حصہ یہ ہے کہ ہماری انتخابی مہمّات میں ایک دوسرے پر الزام تراشی اور بہتان طرازی کو شیرِ مادر سمجھ لیا گیا ہے۔ اپنے مقابل کو چِت کرکے اپنی فتح کا ہاتھ بلند کرنے کے لیے اُس پر بلا تحقیق ہر قسم کا الزام عائد کرنا حلالِ طیّب قرار پا چکا ہے، بلکہ یہ اس سیاسی جنگ کا لازمی حصہ ہے، جس کے بغیر سیاسی فتح کو ناممکن سمجھا جاتا ہے۔[جب کہ] اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کوئی شخص کتنا ہی برا ہو، لیکن اس پر کوئی ایسا الزام عائد کرنا ہرگز جائز نہیں ہے، جس کی سچائی کی مکمل تحقیق نہ ہو چکی ہو، لیکن انتخابی جلسوں کی شاید ہی کوئی تقریر اس قسم کے بلا تحقیق الزامات سے خالی ہوتی ہو، جو بہتان کے گناہِ کبیرہ میں داخل ہیں۔ پھر بعض اوقات اس بہتان طرازی کے لیے اتنی گھٹیا اور بازاری زبان استعمال کی جاتی ہے کہ وہ دشنام طرازی کا گناہ بھی سمیٹ لیتی ہے۔ ایک حدیث میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مسلمان کی جان، مال اور آبرو کو کعبۃ اللہ سے زیادہ مقدّس قرار دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کی جان، مال یا آبرو پر ناروا حملہ کرنا (معاذ اللہ) کعبے کو ڈھانے سے بھی زیادہ سنگین گناہ ہے،لیکن انتخابی مہم کے جوش میں مدِّ مقابل کا کعبۂ آبرو گلی گلی میں ڈھایا جاتا ہے، اور اخباروں کے صفحات سے لے کر انتخابی جلسوں اور کارنر میٹنگز تک کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جو بہتان تراشی اور دشنام طرازی کی عفونت سے بدبو دار نہ ہو۔
(۳)پھر چوں کہ انتخابات کا موقع ایسا ہوتا ہے کہ کسی امید وار کے بارے میں حقائق منظرِ عام پر لانے کی واقعی ضرورت بھی ہوتی ہے، تاکہ عوام کو دھوکے اور نقصان سے بچایا جا سکے، اس لیے کسی امیدوار کے حقیقی اوصاف بیان کرنے کی توجیہ کی جا سکتی ہے، لیکن اس کے لیے اوّل تو یہ ضروری ہے کہ کوئی بات ضروری تحقیق کے بغیر نہ کہی جائے، اور دیانت داری اور انصاف سے ہر حال میں کام لیا جائے، دوسرے یہ بھی ضروری ہے کہ یہ ناگوار فریضہ صرف بہ قدرِ ضرورت ہی انجام دیا جائے، اسے محض مزے لینے اور مجلس آرائی کا ذریعہ نہ بنایا جائے، ورنہ اگر وہ بہتان نہ ہو‘ تب بھی غیبت کے اس گناہِ عظیم میں داخل ہے جسے قرآنِ کریم نے مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی مجلس میں کسی شخص نے حجّاج بن یوسف کی بُرائیاں بیان کرنی شروع کر دیں۔ حجاج کا ظلم و ستم لوگوں میں مشہور تھا، لیکن چوں کہ اس مقام پر بُرائی کرنے کا کوئی صحیح مقصد یا فایدہ نہیں تھا، اس لیے حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ نے فرمایا:
’’یہ غیبت ہے، اور اگر حجاج نے بہت سے لوگوں پر ظلم کیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب ہر شخص کے لیے اس کی غیبت حلال ہو گئی ہے، یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ اگر حجاج سے بے گناہوں کے خون کا حساب لے گا تو اس کی نارَوا غیبت کا بھی حساب لے گا۔‘‘
(۴)دوسروں کی برائی اور ان پر الزام تراشی کے علاوہ انتخابات میں کامیابی کے لیے یہ بھی ضروری سمجھاجاتا ہے کہ منہ بھر بھر کر خود اپنی تعریف اور اپنی خدمات کا مبالغہ آمیز تذکرہ کیا جائے، یاد رکھیے خود سنائی، نام و نمود اور دکھاوے کو مذہب و اخلاق کے ہر نظام میں گناہ یا کم از کم بُرا ضرور سمجھا گیا ہے، لیکن ہماری انتخابی سیاست کے مذہب میں یہ عمل کسی قید و شرط کا پابند نہیں رہا۔
(۵)عوام کو ووٹ دینے پر مائل کرنے کے لیے یہ بھی لازمی سمجھ لیا گیا ہے کہ اُن سے سوچے سمجھے بغیر خوش نما وعدے کیے جائیں، وعدہ کرتے وقت اس بات سے بحث نہیں ہوتی کہ اُن کو پورا کرنے کا کیا طریقہ ہوگا؟ اور اقتدار حاصل ہونے کے بعد وہ کس طرح رو بہ عمل لائے جا سکیں گے؟ مسئلہ صرف یہ ہے کہ وعدوں کے نیلام میں کس طرح دوسروں سے بڑھ چڑھ کر بولی لگائی جائے!۔۔۔ہم بر سرِ اقتدار آکر غریبوں کی قسمت بدل دیں گے، ہم پس ماندہ علاقوں کو پیرس کا نمونہ بنا دیں گے، ہم ہر ضلع میں ایک ہائی کورٹ قائم کر دیں گے، ہم غُربت اور جہالت کا خاتمہ کر دیں گے[وغیرہ وغیرہ]۔ اس قسم کے بلند و بانگ دعوے اخباری بیانات سے لے کر تقریروں تک ہر جگہ سنائی دیتے ہیں، اور ان جھوٹے وعدوں اور دعووں کے ذریعے سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
(۶)جلسے جلوس اور اشتہار بھی انتخابی سرگرمیوں کا ایک لازمی حصّہ ہیں، اگر یہ جلسے جلوس اخلاق و شرافت کی حدود میں ہوں تو ناجائز بھی نہیں، لیکن جلسوں جلوسوں میں غنڈہ گردی روز مرّہ کا معمول بن چکی ہے، جس کے نزدیک سیاسی حریفوں کی جان، مال اور آبرو کوئی قیمت نہیں رکھتی، چناں چہ جس کا داؤ چل جائے، وہ دوسروں کو زَک پہنچانے میں کسر نہیں چھوڑتا۔
(۷)پھر بعض اوقات انتخابی جلسے جلوس ایسے عام اور مصروف راستوں پر منعقد کیے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے شہر کی آبادی کے لیے نقل و حرکت محال ہو جاتی ہے اور ٹریفک کا ایسا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے جو بے گناہ شہریوں کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ نہ جانے کتنے ضعیف اور بیمار لوگ اس قسم کی بدنظمی کی وجہ سے اپنے علاج سے محروم رہ جاتے ہیں، کتنے ضرورت مند اپنے روزگار تک نہیں پہنچ پاتے۔اس طرح عام گزر گاہوں کو بلاک کرکے نہ جانے کتنے انسانوں کو ناقابلِ برداشت تکلیف پہنچانے کا گناہِ عظیم اس قسم کے جلسوں جلوسوں کے حصّے میں آتا ہے۔
(۸)دیواروں کو انتخابی نعروں سے سیاہ کرنا اور شخصی اور سرکاری عمارتوں پر اشتہارات چسپاں کرنا بھی انتخابی مہم کا جزوِ لا ینفک ہے، جس کے نتیجے میں شہر کی بیش تر عمارتوں متضاد نعروں اور اشتہارات سے داغ دار نظر آتی ہیں اور کسی اللہ کے بندے کو یہ خیال نہیں آتا کہ کسی دوسرے کی عمارت کو اس کی مرضی کے بغیر استعمال کرکے اس کا حُلیہ بگاڑنا در حقیقت چوری اور غصب کے مُترادف ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ــ’’کسی دوسرے کی ملکیت کو اس کی خوش دلی کے بغیر استعمال کرنا حلال نہیں۔‘‘
عمارتیں اور دیواریں کسی نہ کسی کی ملکیت ہوتی ہیں اور ان کو اپنے اشتہار کے لیے استعمال کرنا مالک کی اجازت کے بغیرہ حرام ہے، چہ جائے کہ ان کو خراب اور بد نما بنانا، لیکن غربت اور جہالت کے خاتمے کے دعوے دار بے تکان اس چوری اور غصب کا ارتکاب کرتے ہیں، اور اگر کوئی شریف انسان اس عمل سے روکنے کی کوشش کرے، تو اسے پتھروں اور [کبھی تو] فائرنگ کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔
(۹)ووٹوں کی خرید و فروخت اور اس غرض کے لیے لوگوں کو رشوت دینا اور جن لوگوں کے قبضے میں بہت سے ووٹ ہوں، ان کے ناجائز کام کرا دینا، [یا کم از کم] اس کا وعدہ کر لینا ایک مستقل جُرم ہے، جو خدا اور آخرت سے بے فکر امید واروں میں بہ کثرت رائج ہے اور اس نے معاشرے کو اخلاقی تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا ہے۔
(۱۰)ظاہر ہے کہ ساری انتخابی مہم چلانے کے لیے ہر جماعت کو کروڑوں روپیہ د رکار ہوتا ہے، اس کروڑوں روپے کے سرمائے کے حصول کے لیے جو طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، ان میں غیر ملکی طاقتوں سے گٹھ جوڑ اور ان کی دی ہوئی لائن پر کام کرنا ایک ایسی بیماری ہے‘ جو ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، اور جو لوگ باہر سے سرمایہ حاصل نہیں کرتے، یا نہیں کر پاتے، وہ اپنے ہی ملک کے بڑے بڑے دولت مند افراد سے اپنی جماعتوں کے لیے چندے وصول کرتے ہیں اور بسا اوقات یہ چندہ در حقیقت اس بات کی رشوت ہوتا ہے کہ بر سرِ اقتدار آنے کے بعد وہ چندہ دینے والوں کو خصوصی مُراعات دی جائیں گی، اور اگر وہ دینے سے انکار کریں تواُنھیں طرح طرح سے تنگ کیا جاتا ہے۔ جو جماعت جتنی زیادہ طاقت ور ہوتی ہے، اور اس کے اقتدار میں آنے کے جتنے زیادہ امکانات ہوتے ہیں، اس کی چندے کی اپیل اتنی ہی زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔
یہ دس موٹے موٹے گناہ محض مثال کے طور پر ذکر کیے گئے ہیں، لیکن اگر آپ باریک بینی سے غور فرمائیں تو نظر آئے گا کہ ان میںسے ہر گناہ بہ ذاتِ خود بہت سے گناہوں کا مجموعہ ہے اور انتخابی مہم کے دوران اسی قسم کے نہ جانے کتنے گناہوں کا ارتکاب دھڑلّے سے ہوتا ہے۔ اب غور فرمائیے کہ جن حکومتوں کی بنیاد میں جھوٹ، الزام تراشی، بہتان، غیبت، خود سنائی، جھوٹے وعدوں، دوسروں کے ساتھ غنڈہ گردی، مخلوقِ خدا کی ایذا رسانی، دوسروں کی املاک پر ناجائز تصرّف جیسے عظیم گناہ داخل ہوں‘ ان سے ملک و ملّت کو سُکھ چین کس طرح نصیب ہو؟ اور جس ماحول میں ان گناہوں کی ظلمت چھائی ہوئی ہو وہاں سے خیر و فلاح کی روشنی نمودار ہونے کی کیا توقع رکھی جائے!لیکن ان گذارشات کا مقصد محض تنقید براے تنقید نہیں، نہ اس کا منشا یہ ہے کہ لوگوں میں مایوسی پھیلائی جائے، بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ کم از کم ہم اپنی بیماریوں سے آگاہ تو ہوں، اور ان میں سے جس کسی بیماری کا سدِّ باب اپنی قدرت میں ہو اس سے دریغ نہ کریں، اور کم از کم عام مسلمان اُن گناہوں سے محفوظ رہنے کا اہتمام کریں، جن میں وہ بعض اوقات نادانستہ طور پر مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ سمجھنا کہ اس ہنگامہ خیز طوفان میں ایک تنہا شخص خود کسی بُرائی سے رُک جائے تو اس سے معاشرے پر مجموعی طور سے کیا اثر پڑے گا؟ یاد رکھیے کہ معاشرے سے گندگی جس چھوٹی سے چھوٹی مقدار میں بھی کم ہو‘ غنیمت ہے،کیوں کہ معاشرہ در حقیقت افراد ہی کے مجموعے سے عبارت ہے، یہاں چراغ سے چراغ جلتا ہے، لہٰذا بعض اوقات کسی ایک شخص کا عزم و ہمت بھی معاشرے کی تبدیلی میں فیصلہ کُن کردار ادا کر سکتا ہے۔(فقہی مقالات،بترمیم)

http://afif.in/intikhabi-muhim-ke-dus-munkiraat-mufti-muhammad-taqi-usmani-al-falah-islamic-foundation-india/

Voting se mutalliq chand sharayi masail, Nadeem Ahmed Ansari, Al Falah Islamic Foundation, India

 ووٹنگ سے متعلق چند شرعی مسائل، ندیم احمد انصاری، الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا




عورتوں کا ووٹ دینا
ووٹ(دینا)درحقیقت ایک قسم کی شہادت کی حیثیت رکھتا ہے،اسی طرح اس میں مشورہ اور رائے کی حیثیت بھی ہے اور شریعتِ اسلامیہ کی روسے عورت اہل الرائے ،اہلِ مشورہ اور اسی طرح اہلِ شہادت میں سے ہے،چناں چہ قرآنِ کریم میں ہے:فان لم یکونا رجلین فرجل وأمرأتان۔(البقرہ)
خلفاے راشدین کے روشن دورِخلافت میں جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت ختم ہوئی،تو خضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب حضرت عثمان کی خلافت کے لیے لوگوں سے مشورہ اور رائے طلب کی تو اس موقع پر آپؓ نے پاک دامن عورتوں سے بھی مشورہ اوررائے طلب کی تھی۔(البدایۃ والنہایۃ)حضراتِ فقہاؒنے بھی حدود و قصاص کے علاوہ دیگر معاملات میں (عورت کی) شہادت کو صحیح قرار دیا ہے۔(شامی)لہٰذا عورت کے لیے ووٹ ڈالنا منع نہیںہے،بلکہ جب انتخاب اسلامی اور غیر اسلامی نظریےپر مبنی ہو یا ایک امید وار صالح اور اس کے مقابلے میں دوسرا امیدوار فاسق ہو اور خواتین کے ووٹ استعمال نہ کرانے کی صورت میں دین کو خطرہ(ہو سکتا)ہو تو (ان کے ووٹ )استعمال کرانا ضروری ہے۔ تاہم ایک مسلمان عورت کے ووٹ ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پردہ اور دیگر امورِ شرعیہ کا خیال کرتے ہوئے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرے،ورنہ معصیت کے ارتکاب کی صورت میںووٹ کا استعمال کرنا صحیح نہیں۔
حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:عورتوں کے لیے ووٹ ڈالنے کا جواز جب ہے کہ پولنگ اسٹیشنوں پر عورتیں نہ جائیںبلکہ مطالبہ کریں کہ ان کے لیے زنانہ منتظم مقررکیے جائیں۔(کفایت المفتی،حقانیہ)
جہاں تک عورتوں کے لیے مسجد آکر نماز پڑھنے سے بوجۂ فتنہ منع کرنے کی بات ہے،تو ظاہر ہے کہ نماز کوئی وقتی ضرورت کی چیز نہیں،بلکہ ایک دائمی عبادت ہے،جو شب و روز میں پانچ مرتبہ فرض ہے،لہٰذا عورتوں کے لیے بار بار گھر سے نکلنے میں فتنہ و فساد کا اندیشہ غالب ہے،نیز مسجدمیں باجماعت نماز پڑھنا نہ توان پر مَردوں کی طرح ضروری ہے اور نہ ہی باعث ِ فضیلت،بلکہ بفحوائے حدیث عورت کے لیے گھر کی کال کوٹھری کی نماز(زیادہ پردہ ہونے کی وجہ سے)نہ صرف مسجدبلکہ مسجد ِنبوی میں آں حضور ﷺ کی اقتدا میں ادا کی جانے والی نماز سے بھی افضل اور بہتر ہے۔اس کے بر خلاف ووٹ وقتی ضرورت کی چیز ہے،جو گھربیٹھے ممکن نہیں،لہٰذا جس طرح دیگر ضروریات کے لیے بدرجۂ مجبوری ،شرعی پابندیوں کی رعایت کے ساتھ خروج عن البیت(گھر سے نکلنے)کی اجازت اور گنجائش ہے،ووٹ ڈالنے کے لیے بھی ہوگی۔


عورت کا بلا محرم ووٹ دینے جانا
ووٹنگ بوتھ اگر قریب ہے تو شرعاً محرم کا ساتھ ہونا ضروری نہیں ہے،البتہ محرم ساتھ رہنے میں احتیاط ہے اور بہ حالاتِ موجودہ اسی پر عمل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔(شامی دار الفکر)


انگلی پر نشان لگوانا
ووٹ ڈالتے وقت بہ طورنشانی انگلی پر ایک نشان لگایا جاتا ہے،اس کے لیے کبھی تو نیچے میز وغیرہ پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں اور کبھی نشان لگانے والا اپنے ہاتھ میں ووٹ ڈالنے والے کی انگلی پکڑ کر نشان لگا دیتا ہے۔اس صورت میں اگر مرد ،ووٹ ڈالنے والا ہو اور نشان لگانے والی عورت ہویا اس کے بر عکس یعنی مرد،نشان لگانے والا ہواور عورت ،ووٹ ڈالنے والی ہو، ان سب صورتوں میں خیال رہےکہ خواتین کے لیے ووٹ ڈالنے کی اجازت ہی اس وقت ہے جب غیر شرعی امور کے ارتکاب کی نوبت نہ آئے اور غیر محرم منتظمین سے سابقہ نہ پڑے۔لہٰذا غیر محرم منتظم عورت کی انگلی پکڑے اور اس پر سیاہی کا نشان لگائے،تو شرعاً اس کی اجازت نہیں،اور ایسی صورتِ حال میںعورت کے لیے ووٹ ڈالنے کی اجازت نہ ہوگی۔(شامی،دار الفکر)
البتہ اگر غیر محرم سے انگلی پر سیاہی لگانے کی نوبت پیش آجائے تو شرعاً گنجائش ہے،لیکن مسلمانوں پر لازم ہے کہ خواتین کے لیے حکومت سے علاحدہ انتظام یا کم ازکم خاتون منتظمہ کا مطالبہ کریں،اور جب تک اس پر عمل درآمد نہ ہو تب تک انگلی پر نشان لگانے کی حد تک رخصت ہے۔(شامی:دارالفکر)اسی طرح(جب)مرد ووٹر ہو اور(غیر محرم) عورت (اس کی)انگلی پکڑکرنشان لگائے تو ممنوع ہے،اور(انگلی پکڑے بنا) نشان لگادے، تو گنجائش ہے۔(شامی دارالفکر)

http://afif.in/voting-se-mutalliq-chand-sharayi-masail-nadeem-ahmed-ansari-al-falah-islamic-foundation-india/