اگر ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام بھی پاکستان چلے گئے ہوتے!
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
بھارت رتن و سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی رحلت
پر پورے ملک میں جس پیمانے پر سوگ کا عالم رہا، ہمارے علم کے مطابق اس سے قبل کسی وزیر
اعظم یا صدرِ جمہوریہ کے حصے میں یہ دولت نہیں آئی، یہ ان کی انتائین مقبولیت کی بین
دلیل ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہندوستان کی ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی تاریخ میں پہلی
بار ہوا کہ ایک صدرِ جمہوریہ کی رحلت پر پوری قوم یوں متحد ہو کر تصویرِ غم بنی رہی
اور موصوف کی خدمات کا اعتراف اپنے بے گانے ہر ایک نے کیا۔ خصوصاً وہ نوجوان طبقہ،
جسے کسی سے سروکار نہیں ہوتا، اس نے بھی اس عظیم رہنما کو دل سے سلامی دی اور موجودہ
دور کی معروف سوشل سائٹس اور ایپس پر ان کے تابندہ چہرے کی تصویریں مسلسل نظر نواز
ہوتی رہیں۔ ہندو ہو یا مسلمان سب نے ملک کی اس عبقری شخصیت کو شایانِ شان خراجِ عقیدت
پیش کیا، اے کاش! کہ وہ اس عظیم ہستی کے دیے ہوئے تعمیر و ترقی کے سبق سے کبھی صَرفِ
نظر نہ کریں۔حکومت اور اعلیٰ عہدے دارانِ حکومت نے بھی اس عظیم شخصیت کے احسانِ گراں
بار کو یاد کیا نیز پوری میڈیا میں تقریباً دو تین دن تک یہی موضوع چھایا رہا،یوںاس
عظیم ہستی کے انتقال نے جس طرح ملک کے عوام کومذہبی، ذاتی اورعلاقائی و لسانی حد بندیوں
سے اوپر لاکر ایک کر دیا، اس سے واقعی ہر محبِ وطن کا دل باغ باغ ہو گیا۔
قارئین کو مضمونِ ہٰذا کے عنوان سے چونکنے کی ضرورت نہیں، در اصل
اس عنوان کے تحت مضمون نگار صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہے کہ وطنِ عزیز میں اس وقت مسلمانوں
کو جس اجنبیت کا احساس دلایا جا رہا ہے اور شر پسند جس طرح ملک کی فضا کو مسموم کرنے
کی مسلسل کوششیں کر رہے ہیں، بلا تحقیق کسی بھی معاملے میں جس طرح مسلمانوں کو موردِ
الزام ٹھہرانے کا سلسلہ جاری ہے، جس طرح مسلمانوں کے اظہارِ خیال پر پابندی عائد کرنے
کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور ان سب کے باوجودکسی جرأت مندکی جانب سے کسی حق بات کے
اظہار پر فتنہ پرور لوگ جس طرح اسے بار بار پاکستان چلے جانے کا مشورہ دے رہے ہیں،
صرف اس لیے کہ وہ مسلمان ہے۔۔۔تو ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام
بھی اگر ان سب باتوں سے دل برداشتہ ہو کر پاکستان چلے گئے ہوتے، تو آج آپ کس پر فخر
کرتے؟ آج جسے آپ میزائل مین اور بھارت رتن کے روپ میں دیکھ کر یاد کر رہے ہیں، وہ
بھی تو مسلمان ہی تھا! آپ کو یاد دلا دیں اس ہندوستان میں جو مسلمان رہتے ہیں،
وہ اپنے وطن کے تئیں اس درجے وفادار ہیں کہ ان کی وفاداری میں شبہ کرنا گویا لفظِ وفاداری
کو گالی دینا ہے۔ جنگِ آزادی سے لے کر اب تک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، جس وقت دوسرے
خوابِ غفلت میں سوئے ہوئے تھے، اس وقت بھی اگلی صفوں میں مسلمان ہی نظر آئیں گے، پھر
بھی انھیں آج پاکستان جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے! ایک بات اور ملحوظ رہےکہ تقسیمِ
وطن کے بعد جن مسلمانوں نے ہندوستان کو اپنا وطن باقی رکھا، یہ ان کی مجبوری نہیں بلکہ
اپنی پسند تھی۔اس لیے خدارا اب تو زہر اگل کر ملک کی فضا کو مسموم کرنا بند کر کیجیے۔
آگے ہمیں سابق صدرِ جمہوریہ کی زندگی کے چند روشن گوشوں پر گفتگو
کرنی ہے، باوجود اس کے کہ اس موضوع پر بہت سے مضامین شائع ہو چکے ہیں لیکن ہمیں امید
ہے کہ مضمونِ ہٰذا میں ضرور چند باتیں آپ کی توجہ اپنی طرف مبذور کروانے میں کامیابی
حاصل کریں گی۔ان شاء اللہ۔
ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام ایک اعلیٰ
مفکر، سیاست داں، سائنس داں، بھارت رتن، سچے انسان دوست اور بہترین مسلمان تھے۔ جن
کی زندگی بھی امن و آشتی سے عبارت تھی اور ان کی موت نے بھی محبت و پیار کی ہوائیں
چلا دیں۔ موصوف مثبت و اعلیٰ سوچ رکھنے والے بلند ترین اوصاف کے حامل شخص تھے، یہ ان
کے نیک اوصاف کی کا ثمرہ ہی ہے کہ آج مختلف و متضاد نظریات وافکار رکھنے والے بھی
ان کی رحلت پر آب دیدہ ہیں۔ان میں ایمان داری، دیانت داری اور سادگی کی صفت کوٹ کوٹ
کر بھری تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رحلت پر مذہبی علماء نے بھی خراجِ عقیدت پیش کیا
اور ان کی رحلت کو ملک و ملت کا خسارہ ٹھہرایا،اس لیے ہماری دل دعا ہے؛ خدا بخشے بہت
سی خوبیاں تھی مرنے والے میں۔
اےپی جے عبد الکلام یعنی ابو الفاخر زین العابدین عبد الکلام ہندوستان
کے سابق صدر اور معروف جوہری سائنس داں تھے، جو۱۵؍
نومبر۱۹۳۱ء کو تامل
ناڈو کے رامیشورم میں پیدا ہوئے۔ موصوف ہندوستان کے گیارھویں صدر تھےاور انھیں ان کی
اعلیٰ کارکردگیوںکی بنا پر ہندوستان کے اعلیٰ ترین شہری اعزازات؛ ۱۹۸۱ء میں پدم بھوشن اور۱۹۹۷ء میں بھارت رتن سے نوازا گیا تھا۔
انھیں ملک کے میزائل پروگرام کا خالق کہا جاتا ہے جب کہ ملک کے جوہری پروگرام کی ترقی
میں بھی ان کا کردار اہم تھا۔وہ ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتے تھے، ان کے والد ماہی
گیروں کو اپنی کشتی کرائے پر دینے کا کام کرتے تھے، اگرچہ وہ خود تعلیم یافتہ نہیں
تھے لیکن کہا جاتا ہے کہ عبدالکلام کی زندگی پر ان کے گہرے اثرات رہے۔ انھوں نے اپنے
عمل سے جو سبق دیے وہ عبدالکلام کے بہت کام آئے۔ ناسازگیِ حالات کے باعث عبد الکلام
کو تعلیم کے دوران اخبار تقسیم کرنے کا کام تک کرنا پڑا۔ آٹھ سال کی عمر میں اپنے
ایک رشتے دار شمس الدین کے ساتھ اخبار فروخت کرنے والے اس بچے کے بارے میں کون کہہ
سکتا تھا کہ ایک دن وہ ملک کا صدر، بھارت رتن اور میزائل مین کہلائے گا۔ ایسے نامساعد
حالات کے باوجود انھوں نے مدراس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے خلائی سائنس میں گریجویشن
کیا اور اس کے بعد اس کرافٹ منصوبے پر کام کرنے والے دفاعی تحقیقاتی ادارے سے جُڑ گئے
،جہاں ہندوستان کے پہلے سیٹلائٹ طیارے پر کام ہو رہا تھا۔مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی
میںجب داخلے کا وقت تھا تو ان کے پاس ایک ہزار روپے فیس تک نہ تھی، اس لیے ان کی بہن
نے اپنی چوڑیاںگروی رکھ کر بھائی کے داخلے کا انتظام کیا۔ عبدالکلام نے ایروناٹیکل
انجینئرنگ کرنے کے بعد۱۹۶۹ء
میں ہندوستانی خلائی تحقیقی ادارے میں ملازمت اختیار کی، اس کے بعد وہ تین دہائیوں
سے زیادہ عرصے تک ہندوستان میں دفاعی تحقیق اور ترقی کے ادارے اور انڈین سپیس ریسرچ
آرگنائزیشن کے منتظم رہے۔آگے چل کر پروجیکٹ ڈائریکٹر کے طور پر انھوں نے پہلے سیٹلائٹ
جہاز ایسیلوا کی لانچنگ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر عبدالکلام نے۱۹۷۴ء میں ہندوستان کا پہلا ایٹم بم تجربہ
کیا، جس کے باعث انھیں ’میزائل مین‘ کے نام سے جانا جانے لگا۔اس کے علاوہ۱۹۹۸ء میں پوکھران کے ایٹمی دھماکوں میں
ان کا کردار کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ڈاکٹر عبد الکلام ہندوستان کے ایسے سائنس دان
ہیں،جنھیں ۳۰ سے
زائد یونی ورسٹیوں اور اداروں سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریوں سے نوازا گیا۔
سیاسی زندگی
ہندوستان کے گیارھویں صدر کے انتخاب کے موقع پر انھوں نے۸۹فیصد ووٹ حاصل کر کے اپنی حریف لکشمی
سہگل کو شکست دی۔کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ ان کا صدر منتخب ہونا گویا طے ہی تھا اس
کے لیے انتخاب محض ایک رسمی کارروائی تھی۔اس طرح عبدالکلام ہندوستان کے تیسرے مسلمان
صدرمنتخب ہوئے، جن کا انتخاب ملک کے مرکزی اور ریاستی انتخابی حلقوں کے تقریباً پانچ
ہزار اراکین نے کیا۔ انھوں نے۲۵؍
جولائی کو اپنا عہدہ سنبھالااور وہ اس عہدے پر ۲۰۰۲ءسے ۲۰۰۷ء تک بنے رہے۔
تصنیفات
ڈاکٹر عبد الکلام نے اپنی ادبی و تصنیفی کاوشوں کو چار بہترین کتابوں
میں پیش کیا:(۱) پرواز (ونگس
آف فائر کا اردو ترجمہ)(۲) انڈیا-۲۰۲۰- اے وژن فار دی نیو ملینیم(۳)مائی جرنی اور (۴) اگنیٹڈ مائنڈز- انليشگ دی پاور ودن
انڈیا۔ان کتابوں کا مختلف ملکی و غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔
مذاق و مزاج
ڈاکٹر صاحب عجیب مزاج و مذاق کے آدمی
تھے، جب ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن سے وابستہ تھے تو انتظامیہ نے حفاظتی
انتظامات کے لیے دیوار پر کانچ کے ٹکڑے لگانے کا منصوبہ بنایا لیکن ڈاکٹر صاحب نے یہ
منصوبہ صرف اس بنا پر ردّ کردیا کہ اس سے پرندوں کو دیوار پر بیٹھنے میں مشکل ہوگی۔
ایک تعلیمی ادارے کی تقریب میں انھوں نے صرف اس وجہ سے مخصوص کرسی پر بیٹھنے سے انکار
کردیا کہ اس کا حجم دیگر کرسیوں سے زیادہ تھا، جس سے ایک خصوصی امتیاز پیدا ہوتا تھا۔
یہ مذاق و مزاج موصوف کا آخر وقت تک رہا، ان کے ساتھی سرجن پال سنگھ کا بیان کہ جس
تقریب میں ڈاکٹر صاحب کو دل کا دورہ پڑ کر انتقال ہوا، اس میں جاتے وقت سکیورٹی دستے
کے جوان کو کھڑا دیکھ کر وہ مجھ سے بار بار کہتے رہے کہ اسے کھڑا کیوں رکھا گیا ہے،
وہ تھک گیا ہوگا، یہی نہیں بلکہ آئی آئی ایم شیلانگ پہنچنے کے بعد انھوں نے خود جا
کر اس جوان کا شکریہ ادا کیا اورکہا کہ تم تھک گئے ہوں گے، کچھ کھایا نہیں؟ مجھے افسوس
ہے کہ میری وجہ سے تمھیں تکلیف اٹھانی پڑی۔
سنہری باتیں
انسان جس درجے کا ہوتا ہے، اس کی باتیں بھی اسی درجے کی ہوتی ہیں۔
اس لیے یہاں ہم اس عظیم شخصیت کی طرف منسوب چند سنہری باتیں بھی پیش کر رہے ہیں، جن
میں اتھاہ گہرائی اور زندگی کا سبق ہے۔ ڈاکٹر عبد الکلام نےکہا تھا:
�• خدا بھی اُنھی کی مدد کرتا
ہے جو سخت محنت کے عادی ہوں۔
�•
انتظار کرنے والوں کو صرف اتنا ہی ملتا ہے، جتنا کوشش کرنے والے چھوڑ
دیتے ہیں۔
�•
آپ اپنا مستقبل نہیں بدل سکتے لیکن اپنی عادتیں بدل سکتے ہیں اور
آپ کی بدلی ہوئی یہ عادتیں آپ کا مستقبل بدل دیں گی۔
�•اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لیے آپ کو
اپنے مقصد کے تئیں یک سو ہونا ہوگا۔
�•ایک اچھی کتاب ہزار دوستوں کے برابر ہے لیکن
ایک اچھا دوست ہزار کتب خانوں کے برابر ہے۔
�•خواب وہ نہیں، جو آپ نیند میں دیکھتے ہیں،
خواب وہ ہیں، جو آپ کو سونے نہیں دیتے۔
�•
اس سے قبل کہ خواب سچ ہوں، آپ کو خواب دیکھنے ہوں گے۔
�•
عظیم خواب دیکھنے والوں کے عظیم خواب ہمیشہ پورے ہوتے ہیں۔
�•
انسان کو دشواریوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے کہ کامیابی کا لطف اٹھانے
کے لیے یہ ضروری ہے۔
�•جب میں مرجاؤں تو میری انتقال پر چھٹی دینے
کے بجائے اضافی کام کیا جائے۔
وفات
اس دنیا میں جو بھی آتا ہے، اسے ایک نہ ایک دن تو یہاں سے جانا
ہی ہے، اسی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئےیہ عظیم انسان بھی گذشتہ دنوں اس دارِ فانی سے کوچ
کر گیا۔ ۸۳؍برس
کی عمر میں،۲۷؍
جولائی۲۰۱۵ء بروز پیر
شیلانگ میں ایک تقریب کے دوران انھیں اچانک دل کا دورہ پڑا جس سے وہ وہیں گرپڑے اور
انھیں فوری طور پر اسپتال بھی منتقل کیا گیا لیکن وہ جاں بَر نہ ہوسکے اور چند ہی لمحوں
میںروح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
alfalahislamicfoundation@gmail.com
No comments:
Post a Comment