دلت اور اقلیتیں ہر جگہ تعصب و نا برابری کا شکار
مولانا ندیم احمد انصاری (ممبئی)
دلت ہوں یا اقلیتیں ان کے ساتھ جو ناروا سلوک ہندوستان میں اس وقت جاری ہے وہ ہر وطن پرست کے لیے تکلیف کا باعث ہے لیکن ہمارے لیے اس سے زیادہ تکلیف کا باعث یہ امر ہے کہ مناسب جہت میں اس نابرابری کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے، اگر اس جانب واقعی ٹھوس قدم اٹھائے گئے ہوتے تو دادری میں ’اخلاق‘ کے ساتھ جو کچھ ہوا،جس طرح دلت کے بچوں کو نذرِ آتش کیا گیا، اب حیدرآباد میں اس طرح دلت طالبِ علم کی مبینہ خود کشی کا معاملہ ہرگز پیش نہ آتا۔ اس لیے یہ تمام امور تشویش کا باعث ہیں، جن کے تدارک کے لیے حکمت کے ساتھ مناسب اقدامات کیے جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت دلت و اقلیتیں ہر جگہ تعصب کا شکار ہیںگو اتنی شہرت پا جانے والے واقعات دو ایک ہی ہوں۔ تقریباً ہر ریاست و علاقے میں ذات پات اور مذہب وغیرہ کے نام پر تعصب کو ہوا دی جا رہی ہے جو ملک کے پاک صاف فضا کو آلودہ کر رہی ہے۔
حیدرآباد میں دلت طالبِ علم ’روہت ویمولا‘ کی مبیّنہ خودکشی پر دہلی میں واقع یونیورسٹیوں کے طالب علموں نے سے مظاہرے کیے۔جنتر منتر اوروزارت براےفروغِ انسانی وسائل کے باہر مظاہرہ کرنے والے طالبِ علموں کے ایک وفد نے حیدرآباد یونیورسٹی میں مظاہرہ کر رہے طالبِ علموں کے پاس پہنچ کر یکجہتی ظاہر کی، نیز کرانتی یواسنگٹھن(کے وائی ایس) کے بینر تلے بہت سے طالبِ علم کناٹ پلیس میں واقع سینٹرل پارک میں جمع ہوئے، جہاں سے پولیس نے 30مظاہرین کو حراست میں لیا اور بعد میں ان کو چھوڑ دیا گیا، علاوہ ازیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبِ علموں نے بھی احاطے کے باہر ایک ریلی نکالی۔ممبئی یونیورسٹی کالینا کے طلبہ نے بھی احتجاجی مظاہرے کیے لیکن اس پورے معاملے میں اس وقت نیا موڑ آیا جب حیدرآباد یونیورسٹی کے10 دلت اساتذہ اور5 دلت ملازمین نے حکومت کی نا اہلی سے ناراض ہو کر استعفیٰ دے دیا۔بی جے پی نے الزام لگایا ہے کہ روہت ویمولا کی خودکشی معاملے کو لے کر اپوزیشن پارٹیاںسیاست کر رہی ہیں، پارٹی کے قومی سکریٹری سری کانت شرما کہنا ہے کہ جب کبھی انتخابات قریب آتے ہیںتو یہ بریگیڈ بی جے پی کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ شروع کر دیتی ہے۔جب اس بات میں صداقت کا جتنا عنصر ہے اتنا ہی یہ بھی سچ ہے کہ خود بی جے پی معاملے کو دبانے کے لیے اس طرح کی باتیں کہہ رہی ہے۔
دلت طالبِ علم روہت ویمولا کو خودکشی کے لیےاکسائے جانے کے معاملے میں ملزم اے بی وی پی لیڈر نندنم سشیل کمار نےمعاملے میں منصفانہ تحقیقات کرائے جانے کا مطالبہ کیا ہے اور حیدرآباد یونیورسٹی میں روہت اورامبیڈکر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن(اے ایس اے) کے ارکان کی طرف سے ان پر حملہ کیےجانے کے بارے میں جھوٹ بولنے کے دعووں کو مسترد کیاہے۔مرکزی وزیر براے فروغِ انسانی وسائل اسمرتی ایرانی اس معاملے کی جانچ کروا رہی ہیں اور اس کے لیے ایک ٹیم کو وہاں بھیجا گیا ہے۔
اس معاملے میں ہو رہی سیاست میں جہاں ایک طرف عدم برداشت کے معاملے پر رام نائک کا کہنا ہے کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور ہر کسی کو اپنے خیالات رکھنے کا حق ہے لیکن اس آزادی کا فایدہ اٹھانے والوں کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں،کوئی بھی بیان جمہوریت اور جذبات کو متاثر کرنے والا نہیں ہونا چاہیے۔ہندوستان امن کاعلَم بردار ہے اور ملک میں عدمِ برداشت جیسی کوئی چیز نہیں ہے،وہیں کانگریس پر نشانہ لگانے کے لیے اسمرتی ایرانی نے اس سلسلے میں اپوزیشن پارٹی کے ایم پی پی ہنمنت راؤ کا ایک خط پیش کیاہے جس پر راؤ نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا ہےکہ وزارت نے ان کے خط پروقت رہتے مناسب اقدامات کیے ہوتے تو نوجوان طالبِ علم کی جان بچ گئی ہوتی۔ان کا کہنا ہے کہ وزیرکو میرا خط نومبر 2014میں ملا تھا لیکن انھوں نے اتنے دنوں تک میرے خط کی کوئی پرواہ نہیں کی،اگر حکومت نے میرے خط پر قدم اٹھایا ہوتا تو روہت کو خودکشی جیسا قدم نہیں اٹھانا پڑتا۔اس طرح بی جے پی حریف اس معاملے کو لے کر پارٹی پر نشانہ سادھ رہے ہیںاور مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی و مرکزی وزیر بنڈارو دتاتریہ کو اس موت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے انھیں ہٹائے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں،جب کہ دیگر قد آور اور نام ور شخصیات و تنظیموں نے بھی طالبِ علم کی خود کشی میں اصل مجرم کا پتا لگانے اور اسے سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
اصل واقعہ یہ ہے کہ دلت طالبِ علم یونیورسٹی میں ہو رہے تعصب و نابرابری کو لے کر پریشان تھا، جس کےچلتے اس نے حیدرآباد کی مرکزی یونیورسٹی میں ذات پات کی بنیاد پر پائے جانے والی تعصب پرستی کو اُجاگر کر اُسے دور کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اس کی پریشانی پر کان دھرنے کے بجاے وائس چانسلر، مرکزی وزیر بندرو دتاتریہ اور اسمرتی ایرانی کے ایما و اشارے پر روہت ویمولا سمیت اس کے چار پی ایچ ڈی اسکالر ساتھیوں پر ’پابندی‘ عائد کر ان کے ’وظیفوں‘ پر روک لگا، انھیں ہاسٹل سے کھدیڑ دیاگیا۔جب کہ حالیہ خبر کے مطابق روہت ویمولا کے ان چار ساتھیوں سے پابندی ہٹا لی گئی ہے اور ان کے وظیفے بہ حال کر دیے گئے ہیں ۔ یونیورسٹی آف حیدرآباد کی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ امبیڈکر اسٹوڈنٹس ایسو سی ایشن کے یہ چار ارکان؛پرکانت، سنکنا، شیشننا اور وجے کی معطّلی برخاست کر دی گئی ہے، یونیورسٹی کی گورننگ کونسل کی میٹنگ میں ان طلبہ کی معطلی کو برخاست کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم معطل طلبہ کا کہنا ہے کہ انھیں اس معطلی کی منسوخی کے بارے میں کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔ اگر یہ خبر سچ ہے تو وجہ ظاہر ہے کہ بی جے پی حکومت کے لیے دل پر پتھر رکھ کر ایسا کرنا پنجاب و اترپردیش کے اسمبلی الیکشن کی سیاسی حکمتِ عملی ہے، اس لیے کہ ہر دو جگہ ’دلتوں‘ کے غصّے کو کم کرنا ان کی سیاسی ضرورت بن گئی ہے۔اس لیے کہ مسلمانوں کے بعد اگر دلتوں نے بھی اسے کھانے میں آئے بال کی طرح اگر باہرنکال پھینکا تو اس کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔
ہم اس موقع پر صرف حکومت و اپوذیشن سے صرف یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ جب بھی کہیں اس طرح کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو کیوں آپسی چشمکوں میں پڑ کر وقت ضائع کیا جاتا ہے، کیوں اس پر توجہ مبذول نہیں کی جاتی کہ آیندہ کہیں ایسا کوئی واقعہ پیش ہی نہ آئے اور کیوں معاملے کی تحقیقات میں اس کے پُرانا ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے، کیا اس طرح کی سیاسی کرتب بازیوں سے مسائل کا کوئی حل نکل سکتا ہے؟
دلت ہوں یا اقلیتیں ان کے ساتھ جو ناروا سلوک ہندوستان میں اس وقت جاری ہے وہ ہر وطن پرست کے لیے تکلیف کا باعث ہے لیکن ہمارے لیے اس سے زیادہ تکلیف کا باعث یہ امر ہے کہ مناسب جہت میں اس نابرابری کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے، اگر اس جانب واقعی ٹھوس قدم اٹھائے گئے ہوتے تو دادری میں ’اخلاق‘ کے ساتھ جو کچھ ہوا،جس طرح دلت کے بچوں کو نذرِ آتش کیا گیا، اب حیدرآباد میں اس طرح دلت طالبِ علم کی مبینہ خود کشی کا معاملہ ہرگز پیش نہ آتا۔ اس لیے یہ تمام امور تشویش کا باعث ہیں، جن کے تدارک کے لیے حکمت کے ساتھ مناسب اقدامات کیے جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت دلت و اقلیتیں ہر جگہ تعصب کا شکار ہیںگو اتنی شہرت پا جانے والے واقعات دو ایک ہی ہوں۔ تقریباً ہر ریاست و علاقے میں ذات پات اور مذہب وغیرہ کے نام پر تعصب کو ہوا دی جا رہی ہے جو ملک کے پاک صاف فضا کو آلودہ کر رہی ہے۔
حیدرآباد میں دلت طالبِ علم ’روہت ویمولا‘ کی مبیّنہ خودکشی پر دہلی میں واقع یونیورسٹیوں کے طالب علموں نے سے مظاہرے کیے۔جنتر منتر اوروزارت براےفروغِ انسانی وسائل کے باہر مظاہرہ کرنے والے طالبِ علموں کے ایک وفد نے حیدرآباد یونیورسٹی میں مظاہرہ کر رہے طالبِ علموں کے پاس پہنچ کر یکجہتی ظاہر کی، نیز کرانتی یواسنگٹھن(کے وائی ایس) کے بینر تلے بہت سے طالبِ علم کناٹ پلیس میں واقع سینٹرل پارک میں جمع ہوئے، جہاں سے پولیس نے 30مظاہرین کو حراست میں لیا اور بعد میں ان کو چھوڑ دیا گیا، علاوہ ازیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبِ علموں نے بھی احاطے کے باہر ایک ریلی نکالی۔ممبئی یونیورسٹی کالینا کے طلبہ نے بھی احتجاجی مظاہرے کیے لیکن اس پورے معاملے میں اس وقت نیا موڑ آیا جب حیدرآباد یونیورسٹی کے10 دلت اساتذہ اور5 دلت ملازمین نے حکومت کی نا اہلی سے ناراض ہو کر استعفیٰ دے دیا۔بی جے پی نے الزام لگایا ہے کہ روہت ویمولا کی خودکشی معاملے کو لے کر اپوزیشن پارٹیاںسیاست کر رہی ہیں، پارٹی کے قومی سکریٹری سری کانت شرما کہنا ہے کہ جب کبھی انتخابات قریب آتے ہیںتو یہ بریگیڈ بی جے پی کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ شروع کر دیتی ہے۔جب اس بات میں صداقت کا جتنا عنصر ہے اتنا ہی یہ بھی سچ ہے کہ خود بی جے پی معاملے کو دبانے کے لیے اس طرح کی باتیں کہہ رہی ہے۔
دلت طالبِ علم روہت ویمولا کو خودکشی کے لیےاکسائے جانے کے معاملے میں ملزم اے بی وی پی لیڈر نندنم سشیل کمار نےمعاملے میں منصفانہ تحقیقات کرائے جانے کا مطالبہ کیا ہے اور حیدرآباد یونیورسٹی میں روہت اورامبیڈکر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن(اے ایس اے) کے ارکان کی طرف سے ان پر حملہ کیےجانے کے بارے میں جھوٹ بولنے کے دعووں کو مسترد کیاہے۔مرکزی وزیر براے فروغِ انسانی وسائل اسمرتی ایرانی اس معاملے کی جانچ کروا رہی ہیں اور اس کے لیے ایک ٹیم کو وہاں بھیجا گیا ہے۔
اس معاملے میں ہو رہی سیاست میں جہاں ایک طرف عدم برداشت کے معاملے پر رام نائک کا کہنا ہے کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور ہر کسی کو اپنے خیالات رکھنے کا حق ہے لیکن اس آزادی کا فایدہ اٹھانے والوں کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں،کوئی بھی بیان جمہوریت اور جذبات کو متاثر کرنے والا نہیں ہونا چاہیے۔ہندوستان امن کاعلَم بردار ہے اور ملک میں عدمِ برداشت جیسی کوئی چیز نہیں ہے،وہیں کانگریس پر نشانہ لگانے کے لیے اسمرتی ایرانی نے اس سلسلے میں اپوزیشن پارٹی کے ایم پی پی ہنمنت راؤ کا ایک خط پیش کیاہے جس پر راؤ نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا ہےکہ وزارت نے ان کے خط پروقت رہتے مناسب اقدامات کیے ہوتے تو نوجوان طالبِ علم کی جان بچ گئی ہوتی۔ان کا کہنا ہے کہ وزیرکو میرا خط نومبر 2014میں ملا تھا لیکن انھوں نے اتنے دنوں تک میرے خط کی کوئی پرواہ نہیں کی،اگر حکومت نے میرے خط پر قدم اٹھایا ہوتا تو روہت کو خودکشی جیسا قدم نہیں اٹھانا پڑتا۔اس طرح بی جے پی حریف اس معاملے کو لے کر پارٹی پر نشانہ سادھ رہے ہیںاور مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی و مرکزی وزیر بنڈارو دتاتریہ کو اس موت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے انھیں ہٹائے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں،جب کہ دیگر قد آور اور نام ور شخصیات و تنظیموں نے بھی طالبِ علم کی خود کشی میں اصل مجرم کا پتا لگانے اور اسے سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
اصل واقعہ یہ ہے کہ دلت طالبِ علم یونیورسٹی میں ہو رہے تعصب و نابرابری کو لے کر پریشان تھا، جس کےچلتے اس نے حیدرآباد کی مرکزی یونیورسٹی میں ذات پات کی بنیاد پر پائے جانے والی تعصب پرستی کو اُجاگر کر اُسے دور کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اس کی پریشانی پر کان دھرنے کے بجاے وائس چانسلر، مرکزی وزیر بندرو دتاتریہ اور اسمرتی ایرانی کے ایما و اشارے پر روہت ویمولا سمیت اس کے چار پی ایچ ڈی اسکالر ساتھیوں پر ’پابندی‘ عائد کر ان کے ’وظیفوں‘ پر روک لگا، انھیں ہاسٹل سے کھدیڑ دیاگیا۔جب کہ حالیہ خبر کے مطابق روہت ویمولا کے ان چار ساتھیوں سے پابندی ہٹا لی گئی ہے اور ان کے وظیفے بہ حال کر دیے گئے ہیں ۔ یونیورسٹی آف حیدرآباد کی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ امبیڈکر اسٹوڈنٹس ایسو سی ایشن کے یہ چار ارکان؛پرکانت، سنکنا، شیشننا اور وجے کی معطّلی برخاست کر دی گئی ہے، یونیورسٹی کی گورننگ کونسل کی میٹنگ میں ان طلبہ کی معطلی کو برخاست کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم معطل طلبہ کا کہنا ہے کہ انھیں اس معطلی کی منسوخی کے بارے میں کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔ اگر یہ خبر سچ ہے تو وجہ ظاہر ہے کہ بی جے پی حکومت کے لیے دل پر پتھر رکھ کر ایسا کرنا پنجاب و اترپردیش کے اسمبلی الیکشن کی سیاسی حکمتِ عملی ہے، اس لیے کہ ہر دو جگہ ’دلتوں‘ کے غصّے کو کم کرنا ان کی سیاسی ضرورت بن گئی ہے۔اس لیے کہ مسلمانوں کے بعد اگر دلتوں نے بھی اسے کھانے میں آئے بال کی طرح اگر باہرنکال پھینکا تو اس کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔
ہم اس موقع پر صرف حکومت و اپوذیشن سے صرف یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ جب بھی کہیں اس طرح کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو کیوں آپسی چشمکوں میں پڑ کر وقت ضائع کیا جاتا ہے، کیوں اس پر توجہ مبذول نہیں کی جاتی کہ آیندہ کہیں ایسا کوئی واقعہ پیش ہی نہ آئے اور کیوں معاملے کی تحقیقات میں اس کے پُرانا ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے، کیا اس طرح کی سیاسی کرتب بازیوں سے مسائل کا کوئی حل نکل سکتا ہے؟
No comments:
Post a Comment