آخر رمضان گزر ہی گیا
لیکن ہمیں اس کے پیغام اور سکھائے ہوئے سبق کو یاد رکھنا ضروری
ہے
مولانا ندیم احمد انصاری(ممبئی)
تمام مہینوں
کاسردار،ماہِ رمضان اپنی برکتیں اور رحمتیں سمیٹ کر آخر ہماری زندگیوں سے رخصت ہو
ہی گیا۔اللہ تعالیٰ ہماری زندگیوں میں بار بار اس ماہ کو لائے اور ہمیں اس کی
برکتوں اور رحمتوں کو سمیٹنے کی توفیق دیتا رہے۔آمین
اللہ تعالیٰ نے اس
کائنات میں ایک خاص نظام قایم کیا ہے،جس کے مطابق تمام چیزیں یکساں اور برابر درجے
کی نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بعض مقامات کو بعض مقامات پر،بعض اوقات کو بعض اوقات پر،بعض
دنوں کو بعض دنوں پر،بعض راتوں کو بعض راتوں پراور بعض مہینوں کوبعض مہینوں پر
فضیلت عطا فرمائی ہے۔بیت اللہ میں نماز پڑھناایک لاکھ نمازوں کے برابر ثواب رکھتا
ہے۔(صحیح البخاری: ۱۱۹۰،ابن
ماجہ:۱۴۰۶)مسجدِ
نبویﷺ میں نماز پڑھنا پچاس ہزارنمازوں کے برابر ثواب رکھتا ہے۔(مسند أحمدابن
حنبل:۱۶۰۵)عرفہ کا
روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتاہے۔(ترمذی:۷۴۹،مسلم:۱۱۶۲)شبِ قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر
ہے۔(سورۃ القدر:۳) رمضان
تمام مہینوں کا سردار ہے۔(المعجم الکبیر للطبرانی:۸۹۰۷)اس میں نیکیوں کا ثواب ستر گنا
تک بڑھا دیا جاتاہے۔اس ماہ میں کی گئی نفل عبادات ،دیگر ایام کے فرضوں کے برابر
ثواب رکھتی ہے۔(ابن خزیمہ:۱۸۸۷)
یہ سب خدا کی رحمت
ہے،جو اپنے بندوں پر بارش کے قطرات کی طرح برستی ہے۔یہاں غور کا مقام یہ ہے کہ
دیگرمہینوں کے مقابلے میں اس ایک ماہ کو اتنی فضلت سے آخر کیوںنوازا گیا۔ذرا سی
توجہ دیں تو یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نہایت ہی
کریم ہے،وہ جانتا ہے کہ میرے بندے سال بھراس قدر مشقت برداشت نہیں کر سکتے،اس لیے
اس نے صِرف ایک مہینے کو روزوںاور مخصوص احکامات کے لیے چُنا اور سال کے باقی
گیارہ مہینوں میں حلال روزی اور حلال کھانے پینے کی اجازت دے دی۔
سال میں ایک مہینے
کے روزے بھی اسی لیے فرض کیے گئے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے؛ (رمضان کے روزے فرض کیے
گئے ہیں،بندوں کی) اس امیدپر کہ شاید وہ متقی اور پرہیزگار بن جائیں!(سورۃ البقرہ:
۱۸۳)یعنی اگر
اس ایک ماہ میں انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے رسول کی کامل اتباع کر
لی،اس مبارک مہینے میں خدا و رسول کا حکم سمجھ کر حلال چیزوں سے رُک گئے تو اب یہ
امید کی جا سکتی ہے کہ باقی گیارہ مہینے خدا و رسول کی حرام کی ہوئی چیزوں سے رُک
سکیں گےلیکن اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم کرے! ہم نے تو یہ سمجھ لیا کہ اس ایک
مہینہ میں چوکچھ نیکی ہو سکے کرلو،اس کے بعد اللہ اللہ خیر سے اللہ ۔یاد رکھیے
ایسا کرنا گویا کہ رمضان المبارک کی ناقدری کرنا ہے، اس لیے کہ رمضان المبارک کا
مہینہ تو ہمیں تقوے کا سبق سکھانے آیا تھا، اس کے گزرتے ہی اس سبق کو بھول جانا
ہرگز درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فقط ایک ماہ چند رسمی سی عبادتوں کے کر لینے سے
ہم ساری ذمہ داریوں سے آزاد نہیں ہو سکتے!
’رمضان
کے عبادت گزاروں‘ کو سال کے باقی گیارہ مہینوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور
اس کے احکام پر عمل کرنا لازم ہے۔یہ نہیں کہ ستائیس رمضان ،یا چاند رات ،یا عید کی
نماز تک اللہ اللہ کرکے اس کے بعدسنیما ہال میں جابیٹھیں،مسجدوں کو خیرباد کہہ
دیں،جمعہ جمعہ نماز پڑھنے کو کافی سمجھیں۔یہ تو نہایت مہلِک شیطانی دھوکہ ہے۔نماز
ہردن رات میں پانچ وقت فرض ہےلیکن کیا کیجیے ! رمضان میں تراویح اور تہجد پڑھنے
والے بھی نہ جانے کتنے ہیں جو غیررمضان میں فرض نمازوں کی بھی پروا نہیں کرتے۔شاید
انھیںشیطان یہ فریب دیتا ہے کہ اب تو تیرے گناہ معاف ہو گیے،’طاقت بھر رمضان میں
عبادت بھی کر چکا‘اب ذرا دنیا کے کام کاج سنبھال۔پہلی بات تو یہ سوچنے کی ہے کہ ہم
رمضان میں کتنی عبادت کرتے ہیں؟تراویح کی جلدی جلدی کچھ اُٹھک بیٹھک یا کھانے کا
نظام دوپہر اور رات کی بجائے صبح و شام کو کرنے کے سوا ہماری زندگی میں اور کیا
تبدیلی آتی ہے؟اگر آپ ایمان داری کے ساتھ اپنے معمولات کا جائزہ لیں گے،تو معلوم
ہوگا کہ ہمیں رمضان بھر رمضان ،رمضان چِلّانےکے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
رمضان تو ہماری
زندگیوں میں خوش گوار انقلاب لانے،اللہ تعالیٰ سے کمزور ہوئے ہمارے رشتے کو مضبوط
کرنے ،ہمارے گناہوں کو جلاکر خاکستر کرنے،ہمارے سینوں میں غریبوں اوربھوکوں کے درد
کا احساس پیدا کرنے …کے لیے آیا تھا۔ رمضان ہمیں یہ سبق دینے کے لیے آیا تھا کہ
جس طرح ہم رمضان میں حلال روزی سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی خاطر مقررہ وقت میں رُکے
رہے،اسی طرح سال کے باقی گیارہ مہینے بھی اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے
رُکے رہیں۔جس طرح روزے کی حالت میں ہم نے اپنی بیوی سے اپنی ضرورت پوری نہیں
کی،اسی طرح سال کے باقی گیارہ مہینوں میں کسی حرام جگہ میں اپنی شہوت پوری نہ
کریں۔جس طرح ہم رمضان میں نیند کے غلبہ کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے دست بستہ
کھڑے رہے،اسی طرح رمضان کے علاوہ بھی، جب اللہ تعالیٰ کا منادی ہمیں آواز دے،تو ہم
بستروں سے اٹھ کھڑے ہوںگے۔رمضان ہمیں یہ پیغام دینے آیا تھاکہ جس طرح ہم رمضان
میںرات ودن، اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہے،اسی طرح ہماری پوری زندگی اللہ
تعالیٰ کی یاد میں بَسرہولیکن ہمارا حال یہ ہے کہ جس طرح آج کے نام نہاد مدرسہ
وکالج سے فارغ التحصیل طلباء کتابوں کی طرف رُخ کرنا پسند نہیں کرتے،ایسے ہی ہم
رمضان کے بعد مسجد کا رُخ کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ ہم
رمضان المبارک کو اللہ تعالیٰ کے حکم اور انعام کے طور پر نہیں گزارتے بلکہ ایک
تہوار کی طرح گزارتے ہیں،جب کہ رمضان کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے اختتام پر زندگیوں
کا رُخ صحیح ہو جائے۔رمضان میں ایک ماہ تک تقویٰ کا کورس کرنے والوں کو اگر اس کے
گزرنے کے بعد اُس کا سکھایا ہوا سبق یاد نہ رہے، تو یہ تو ایسا ہے کہ یہ پورا کورس
ہی بے فائدہ رہا۔اس لیےاب رمضان المبارک تو گزر گیالیکن ہمیں اس کا دیا ہوا سبق
یاد رکھنا ہے ،اللہ تعالیٰ ہمارے روزوں کو قبول فرمائے،ہماری تراویح کو قبول
فرمائے،ہماری نیکیوں کو قبول فرمائےاور ہم سب کو صحیح سمجھ نصیب فرمائے۔آمین
(مضمون
نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے ڈائریکٹر ہیں)
No comments:
Post a Comment