Sunday, 26 July 2015

کاش ارشد و محمود کا ملن ہو جائے
مولانا ندیم احمد انصاری(ممبئی)

اس کائنات میں غور کرنے کے بعد یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اختلافات اس کائنات کی اصل خوب صورتی ہیں۔ یہاں مخلوقات کی جنس میں اختلاف ہے، ایک ہی سی مخلوقات کے مابین بھی اختلاف ہے، ان کے رہنے سہنے، چلنے پھرنے، بود و باش اور رنگ و آواز ہر چیز میں اختلاف ہے۔ انسان کی سوچ اور اس کی فکر میں اختلاف ہے اور ان کے کام کرنے کے انداز میں بھی اختلاف ہے۔ پھر یہ اختلافات کچھ مضر بھی نہیں جب تک کہ اپنی حدوں میں رہیں، ہاں جب یہ اپنی حدوں سے گزر جائیں اور آپسی اختلافات اس درجے پر پہنچ جائیں کہ انھیں افتراق کا نام دیا جانے لگے، تو اس کے مضر اثرات انسانی زندگی پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ یہ بات عام زندگی میں تو لوگ ایک حد تک سمجھتے ہیں اور اسی لیے آپسی اختلافات کو کسی نہ کسی درجے میں برداشت بھی کرتے ہیں لیکن جب بات دین و مذہب کی آتی ہے تو بعض کم فہم صلحِ کُل کی دعوت دینے لگتے ہیں اور ہر قسم کے اختلافات کو بالائے طاق رکھنے کے در پے ہوتے ہیں، جس سے ایک فریق کی شکل و صورت ہی مسخ ہو جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایسی بات نہیں جس کے لیے کوئی دانا راضی ہو سکے۔ علاوہ ازیں بعض اختلافات سیاسی و سماجی ہوتے ہیں، جن میں ایک شخص دوسرے سے مختلف سوچ رکھتا ہے اور ایک کی نظر میں فلاح و بہبود جس امر میں پوشیدہ ہوتی ہے، دوسرے کی نظر میں اس کے خلاف ہوتا ہے۔ بنا بریں فریقین میں رسہ کشی شروع ہو جاتی ہےاور معاملہ اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ مصالحت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ در اصل جھگڑا اس بات کا نہیں ہوتا کہ دنیا میں اختلافات ہیں بلکہ راقم کی ناقص فہم کے مطابق اصل جھگڑا اس بات کو لے کر ہوتا ہے کہ ہر آدمی اختلافات سے نمٹنے کا راستہ یہ نکالتا ہے کہ سامنے والا میری بات مان لے اور اپنا موقف چھوڑ دے۔ ظاہر ہے یہی بات مدِّ مقابل کے ذہن میں بھی رہتی ہے، نتیجۃً مصالحت کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔یہ سب باتیں جب تک عوام کی حد تک رہیں ، ان کو بہت زیادہ توجہ نہیں دی جا سکتی لیکن جب اہل علم اور علماء کے درمیان اس طرح کی باتیں ہونے لگیں تو یہ یقیناً تشویش کا باعث بن جاتی ہیں، اس لیے کہ پھر ان کے اثرات متعدی ہو جاتے ہیں جن کو روکنا مشکل ترین امر ہوتا ہے۔
اس مضمون اور تمہیدِ بالا کو صفحۂ قرطاس کرنے کا باعث جمعیۃ العلماء ہندسے متعلق مصالحت کی ایک خبر ہے، جو کہ گذشتہ دنوں نظر نواز ہوئی۔جمعیۃ العلماء ہند ملک کی قدیم مسلم جماعت ہے، جس کا اصل مقصد مظلوموں کو انصاف دلانا اور مسلمانوں کی نمائندگی کرنا ہے۔ یہ ایک ایسی جماعت ہے جس میں اکابر علماء کا خونِ جگر لگا ہے اور جس کی قیادت میں ان گنت خیر و فلاح کے کارنامے انجام پائے ہیںالبتہ مضمونِ ہٰذا میںاس مؤقر جماعت کی خدمات کا جائزہ لینا مقصود نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ تقریباً ۲۰۰۸ء سے جمعیۃ العلماء ہند بعض اختلافات کی بنا پر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور ایک حصہ مولانا سید ارشد مدنی اور دوسرا حصہ مولانا سید محمود مدنی کی طرف منسوب کیا جانے لگا۔ ہر دو نے اس دورانیہ میں بڑھ چڑھ کر مختلف النوع خدمات بھی انجام دیں لیکن اس بات سے انکار کرنا شاید کسی کے لیے ممکن نہیں کہ علاحدہ علاحدہ ہو جانے کے بعد ان دونوں میں سے کسی ایک کی آواز میں بھی پہلے جیسا وزن باقی نہ رہابلکہ بعض دفعہ تو ایسی خبریں بھی اخبارات کی زینت بنیں جن کا صدور علماء کی جماعت کو ہرگز زیب نہیں دیتا۔ ایک دوسرے کو زیر کرنے کی مختلف حرکتیں سامنے آئیں گو یہ سب بڑوں کی طرف سے نہ ہوں لیکن انھیں سے منسوب ہیں جنھیں اس جماعت کا رکن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان سب باتوں سے جہاں عوام کو اکابرین سے بدظنّی ہوئی وہیں علماء بھی آپس میں بٹ کر رہ گئے اور وہ جماعت جو مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لیے وجود میں آئی تھی، آپسی انتشار کا شکار ہو کر رہ گئی۔ ایسا نہیں کہ اس زمانے میں مصالحت کی کوششیں نہیں کی گئیں بلکہ مختلف طریقوں سے ان کے درمیاں حائل خلیج کو پاٹنے کی کوششیں بھی جاری رہیں لیکن سب بے سود۔
اس سال جب عید الفطر کا چاند نظر آیا اور لوگوں نے ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد پیش کی، اس موقع پر ان دونوں جماعتوں کے سر براہ یعنی مولانا سید ارشد مدنی اور مولانا سید محمود مدنی کی قربت بڑھی اور اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ۔۔۔جمعیۃ العلماء ہند میں گذشتہ ۸برسوں سے جاری اختلاف ختم ہونے کے قریب ہے۔۔خبر آئی کہ جمعیۃ کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کی موجودگی اور قاری سید محمد عثمان منصورپوری کی صدارت میں منعقدہ جمعیۃ مجلسِ عاملہ کی میٹنگ میں کچھ اہم قراردادیں منظور ہوئیں، جن میں سب سے اہم قرارداد مصالحت کی تھی۔ اس میٹنگ میں اختلافات کو دور کرنے کے لیے پیش کی گئی تجویز کی بھر پور تائید کی گئی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جلد ہی مولانا سید ارشد مدنی ماضی کی طرح مکمل طور پر غیر متنازع طریقے سے جمعیۃ العلماء ہند کی سربراہی کریں گے اور ان کی سرپرستی میں محمود مدنی قوم و ملت کے جمعیۃ کے مشن کو آگے بڑھائیں گے۔۔اس وقت ملکی، ملّی اور عالمی حالات اس بات کے شدید متقاضی ہیں کہ فریقین اختلافات کو ختم کرکے مصالحت کی راہ نکالیں۔۔اس سلسلے میں کافی بحث و تمحیص اور مختلف آرا پر غور کرنے کے بعد مجلسِ عاملہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ سردست فریقین میں اتحاد و مصالحت کے لیے یہ تجویز عمل میں لائی جائے کہ اختلافات کے آغاز کے وقت جو منتظمہ کے ارکان تھے، ان میں سے جو حضرات باحیات ہوں، ان کے فیصلے کو فریقین تسلیم کریں۔۔ ۔سچ پوچھیے تو ہمیں اس خبر سے نہایت شادمانی ہوئی۔ ہماری دلی تمنا ہے کہ یہ خواب جلد از جلد شرمندۂ تعبیر ہو، اس لیے کہ عید ملن پر گلے مل لینا اور آپس میں مبارک باد پیش کر دینا یقیناً اچھا شگون ہے لیکن منزل اس سے بہت آگے ہے،اصل بات تو جب ہے کہ ارشد و محمود کی طاقت ایک ساتھ ابھرے اور مسلمانوں کے کام آئے۔
جمعیۃ العلماء ہند ہو یا دیگر مسلم جماعتیں، ان میں جس قدر اتحاد ہوگا اتنا ہی مسلمانوں کو ان سے فایدہ پہنچے گا اور اس بات سے وہ خود بھی بخوبی واقف ہیں کہ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔ جمعیۃ العلماء ہند کے تو جھنڈے پر ہی لکھا ہوا ہے ’’ید اللہ علی الجماعۃ‘‘ پھر کیا بات ہے کہ ملک کے ایسے نازک حالات میں، اب تک اس جماعت نے مصالحت کر اتحاد قائم نہیں کیا۔ خدارا اب تو ہوش کے ناخن لیجیے کہ وطنِ عزیز میں مسلمانوں کی انگلیاں خواہ کتنی ہی مضبوط ہوں انھیں جب تک مٹھی کی شکل نہیں دی جائے گی، تب تک وہ دوسروں کی حفاظت تو کیا اپنی حفاظت میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ آپ جو بھی نیک کام کریں ہم ان کی قدر کرتے ہیںلیکن کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ آپسی اختلافات کے باوجود مصالحت کے لیے پیش قدمی کی جائے اور ملک و ملت کی خاطر ایک ہوا جائے تاکہ مسلمانوں کی شان و شوکت میں کچھ اضافہ ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ ان سب کے چلتے عوام میں اتحاد و محبت کا پیغام دینا مشکل ہو گیا ہے اور وہ پلٹ کر یہی کہتے ہیں کہ جب تمھارے بڑے ہی آپس میں ایک نہیں تو تم دوسروں کو کیا ایکتا کا پاٹھ پڑھاتے ہو! 

No comments:

Post a Comment