Saturday 25 March 2017

Naach aur gaane bajane ko aam karna ek gahri sazish

ناچ اور گانے بجانے کو عام کرنا ایک گہری سازش!
ندیم احمد انصاری




فی زمانہ ناچ اور گانے باجے کو ریلٹی شوز کے ذریعے اتنے بڑے پیمانے پر فروغ دیا جا رہا ہے کہ خدا کی پناہ! تقریباً ہر بڑے شو میں ہزاروں لاکھوں بچّے و بچیاں اور مرد و خواتین آڈیشن کے لیے آتے ہیں، جس کے تشہیر ہر سڑک اور گلی کوچے میں کی جاتی ہے، پھر سفر کی صعوبتیں برداشت کر، رات رات بھر قطاروں میں کھڑے ہوکر، دن و رات ریاض کرکے معتد بہ تعداد شو میں آگے بڑھتی ہے، پھر ان میں سے تین چار لوگ فائنل میں آکر رخصت کر دیے جاتے ہیں اور بعض مقامات پر انھیں بھی کسی قدر انعامات سے نوازا جاتا ہے ، جب کہ اول مقام حاصل کرنے والوں کو پچاس پچاس لاکھ تک کے نہ صرف انعامات دیے جاتے ہیں بلکہ انڈسٹری میں ان کی اینٹری بھی تقریباً طے ہو جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کیا ہندو اور کیا مسلمان، آج کل بہت سارے لوگ اسی طرح بڑا بننے کا خواب بُننے لگتے ہیں، ویسے بھی ان پروگراموں کی پیش کش بھی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ پیچھے رہ جانے والے ہزاروں لاکھوں پر تو کسی کی نظر بھی نہیں جاتی، جب کہ وہ بھی بہت کچھ سیکھ کر ہی آئے ہوتے ہیں، بس جیتنے والے کے پچاس لاکھ روپئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ان شو والوں کا بزنس ہے ، جس میں وہ کروڑوں بلکہ اربوں کماتے ہیں اور عوام اسے کھیل تماشا سمجھتے ہیں۔یہ وسیع موضوع ایسا نہیں کہ چند پیراگرافس میں سمیٹا جا سکے ، یہاں انتہائی اختصار کے ساتھ چند باتیں عرض کی جا رہی ہیں۔
حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق فتنوں کا ایک ایسا زمانہ بھی اس دنیا میں بسنے والوں کو دیکھنا ہے جس میں دین پر عمل کرنا ہاتھ پہ انگارہ رکھنے کی مانند ہوگا، خیال ہوتا ہے کہ وہ زمانہ آچکا ہے۔ اس لیے کہ ہمارے وطن ہندوستان میں اس وقت کچھ ایسی فضا بنائی جا رہی ہے ، جس میں مذہبِ اسلام کے مسلّمات اور طے شدہ امور پر بے وجہ بحث و مباحثے کے دروازے کھولے جا رہے ہیں، اور آزادیِ اظہار و بیان کے نام پر خدائی دین میں رائے زنی کی جا رہی ہے،ایسے موقعوںپر اصحابِ علم و قلم کی ذمّے داری بنتی ہے کہ وہ پوری تن دہی سے احقاقِ حق اور ابطالِ باظل کی خدمت انجام دیں۔ ناچ، گانا اور باجا وغیرہ اسلام کی رو سے قطعاً ممنوع ہے ،جس میں کسی اہلِ علم کا اختلاف نہیں، اس کے باوجود گذشتہ دنوںکسی بچّی کے اس مشغلے کو بہ طور پیشہ اختیار کرنے پر علما کی طرف سے کی گئی اپیل یا تلقین کو میڈیا اور اسلام دشمن عناصر نے فتوے کے نام سے اس طرح پیش کرنے کی کوشش کی کہ غلط فہمیوںکو فروغ ہو۔ بعد میںگو کچھ لوگوں نے شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ انھوں نے قبل از تحقیق خبر کو غلط طریقے سے پیش کر دیا تھا، وہ ایک اپیل تھی فتویٰ نہیں، اس کے باوجود یہ شوشہ چھوڑنے سے پیچھے نہ ہٹے کہ کیا اسلام میں واقعی گانا بجانا حرام ہے اور یہ کہہ کر کہ’اگر ایسا ہے تو ہم اس سے اتفاق نہیں رکھتے‘، اسلام کے ایک مسلّمہ امر میں رائے زنی کرکے لوگوں کو میں وسوسہ ڈالنے کی اپنی سی کوشش کی،جب کہ قرآن و احادیث اور فقہ‘ جو کہ شریعتِ اسلامی کے مآخذ ہیں، ان میں ان امور کی حرمت صراحت کے ساتھ مذکور ہے ۔گانا بجانا پوری امتِ مسلمہ کے نزدیک حرام ہے اور جن لوگوں نے سماع وغیرہ کے نام سے گنجائش نکالنے کی سعی کی ہے ، وہ بھی تاویلوں کا سہارا لیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :اَفَمِنْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ۔ وَتَضْحَکُوْنَ وَلَا تَبْکُوْنَ۔ وَاَنْتُمْ سٰمِدُوْنَ۔ (ترجمہ)تو کیا تم اسی بات پر حیرت کرتے ہو ؟اور(اس کا مذاق بنا کر) ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو، جب کہ تم تکبر کے ساتھ کھیل کود میں پڑے ہوئے ہو؟ (النجم: 59-61) سمود کے معنی غفلت اور بے فکری کے ہیں، سامدون بہ معنی غافلون ہے اور ایک معنی سمود کے گانے کے بھی آتے ہیں، وہ بھی اس جگہ مراد ہوسکتے ہیں۔ (معارف القرآن: 8/222) اگر سامدون کے دوسرے معنی مراد لیے جائیں تو اشارہ اس طرف ہوگا کہ کفارِ مکہ قرآن کی آواز کو دبانے اور لوگوں کی توجہ دوسری طرف ہٹانے کے لیے زور زور سے گانا شروع کردیتے تھے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل ہی ارشاد فرما دیا تھاکہ ’میری امت میں ایسے برے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو زناکاری، ریشم کا پہننا ، شراب پینا اور گانے بجانے کو حلال بنا لیں گے اور کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑ کی چوٹی پر چلے جائیں گے ، چرواہے ان کے مویشی صبح و شام لائیں گے اور لے جائیں گے ۔ ان کے پاس ایک فقیر آدمی اپنی ضرورت لے کر جائے گا تو وہ ٹالنے کے لیے اس سے کہیں گے کہ کل آنا۔ (بخاری:5590) یہ تمام چیزیں آج ہر طرف دیکھی جا سکتی ہیں، آج بھی لوگ گانے باجے میں لگ کر یا لگا کر لوگوں کو قرآن سے غافل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، اتنا ہی نہیں بلکہ وہ یہ باور کرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ اس میں کوئی قباحت نہیں،دراصل یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے ، جسے بہت کم ذہن سمجھ سکے ہیں۔
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ انسان کا دماغ برقی لہروں( electrical waves)پر فنکشن کرتا ہے ، اس پر جو سگنل (signal)جاتے ہیں وہ الیکٹرکل سگنل ہوتے ہیں، جو انسان کے جسم میں چارج ہوتے ہیں، اس لیے اگر ریڈیو چل رہا ہو اور آپ اس کے اینٹینے کو پکڑ لیں تو اس کی آواز بہتر ہو جاتی ہے ، کیوں کہ آپ اس کے ویوس(waves)کو رِسیو(recieve)کرکے اسے دینے لگتے ہیں، اسی کے پیشِ نظر میوزک پر ریسرچ کی گئی کہ وہ پہلے تو محض ایک آواز ہوتی ہے ، مگر انسان کے جسم میں پہنچ کر الیکٹرکل ویو( electrical wave)بن جاتی ہے ، جسے ویو لیٹ اینالیسس(wavelet analysis)کہتے ہیں کہ کون سی ویو لیٹ انسان کے دماغ پر زیادہ اثر کرتی ہے ، چناں چہ ایسی ویو لیٹ ایجاد کی گئیں جسے سن کر آدمی تِھرکنا بھی شروع کر دیتا ہے ، جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ دماغ تک پہنچ گئے ۔ پھر اس پر محنت کرتے کرتے ایک سسٹم ایجاد کیا، جس کا نام ہے بیک ٹریک سسٹم(Back Track System)(Back‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ میوزک تو ویو بار(wave bar) میں ہوتی ہے ، اس کے اوپر اپنا ایک میسج بٹھا دیتے ہیں، جیسے کسی انسان کے کندھے پر مکھی بیٹھ جائے اور جہاں انسان داخل ہو، وہ بھی ساتھ ہی میں داخل ہو جائے ، بالکل اسی طرح انسان میوزک تو سنتا محض ری فریش (refresh)ہونے کے لیے ، مگر اس کے ساتھ وہ پیغام بھی اس کے دماغ تک پہنچتا ہے اور اثر دکھاتا ہے ، چناں چہ اس کا تجربہ شروع میں اس طرح کیا گیا کہ ایک گانا بنوایااور ایک ایسے گویّے کے ذریعے سے کہ جس کی آواز لوگ پسند کرتے تھے گوایا گیا، اس طرح لوگ اسے بار بار سنتے ، پھر اس گانے پر انھوں نے اپنا پیغام بھیجا کِل یور مام(kill your mom)، پھر انھوں نے اینالیسس (analysis)کیا کہ جتنے نوجوانوں کو وہ گانا پسند تھا، وہ اسے سنا کرتے تھے ، ان کے اندر اپنی امّی کے بارے میں ایسا غصہ پیدا ہو جاتا تھا کہ ان کا دل چاہتا تھا کہ اسے قتل کر ڈالیں۔ جب ان سائنس دانوں کو اس کا بھی کامیاب تجربہ ہو گیا، تو اس طرح کے بار بار تجربے کیے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ کسی کی مرضی کے بغیر اس کے دماغ تک پہنچ سکیں، جو سائنس کی دنیا میں بڑی کامیابی تھی۔ اس طرح انھیں ایک ٹول(tool) ہاتھ آگیا کہ کسی بھی انسان کے دماغ میں میوزک کے ذریعے اپنا پیغام بھیج سکتے ہیں، یہاں سے ایک نئے دور نے جنم لیا، جسے کہتے ہیں کلچر تھرو میڈیا(culture through media)، یہ انسان کی زندگی کا ایک نیا باب ہے ، جس کے ذریعے اپنے کلچر کو لوگوں کے دماغ میں بٹھا دیا جاتا ہے ، چناں چہ پہلے میوزک حرام تھی اس لیے کہ اس میں فقط ٹون(tone) ہوتی تھی اور آج کل تو میوزک اس لیے حرام در حرام در حرام ہے کہ اس میں انسان کا ایمان ضایع ہونے کا خطرہ ہے ۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ جن لوگوں کو میوزک سے دل چسپی ہے ، آپ لاکھ اسے سمجھائیں، جتنی چاہیں نیک باتیں سنانے کی کوشش کریں، وہ اسے سننا پسند نہیں، کیوں کہ میوزک کے ذریعے نیکی کے خلاف اس کے دماغ میں اتنا کچھ بھر دیا گیا ہے، جو اسے نیکی کے قریب آنے نہیں دیتا۔(مستفاد از خطباتِ ذوالفقار:19/218-227)
یہ سب تحقیقیں تو بعد میں آنے والے انسانوں کی ہیں، لیکن پیغمبرِ خدا نے مسلمانوں کو اپنے زمانے ہی میں ان سب سے آگاہ کر دیا تھا، تاکہ کوئی انسان کسی انسان کے ذہن کو ہیک (Hack)کرکے انھیں اپنا غلام بنانے کی غلط کوشش نہ کر سکے، کاش مسلمان سمجھیں اور اس لعنت سے توبہ کریں اور اپنی اور آنے والی نسلوں کی حفاظت کریں۔
http://afif.in/

http://afif.in/naach-aur-gaane-bajane-ko-aam-karna-ek-gahri-sazish/

Tuesday 21 March 2017

Al Falah Islamic Foundation, India aur uske baani ki khidmaat qabil-e-qadr aur layaq-e-tahseen hain, Maulana Muhammad Islam Qasmi

الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا اور اس کے بانی کی خدمات قابلِ قدر اور لائقِ تحسین ہیں : مولانا محمد اسلام قاسمی
کتاب پڑھنے سے پہلے یہ تحقیق کر لیں کہ وہ معتبر بھی ہے یا نہیں:مفتی عزیزالرحمن فتحپوری


دینی مسائل کو سمجھنے کے لیے مولانا ندیم احمد انصاری کی علمی و تحقیقی تصنیفات نہایت مفید: مفتی محمود عالم مظاہری



19 مارچ2017ء کو نمازِ مغرب کے فوراًبعد جامع مسجد، باندرہ کے نزدیک بازار روڈ پر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کی جانب سے ایک عظیم الشان قومی اجلاس منعقد کیا گیا،جس کا آغاز ادارے کے ایک نوجوان طالبِ علم محمد فیضان شیخ نے تلاوت قرآن سے کیا اور بعدہٗ مولانا بذل الٰہی نے نعتیہ اشعار پیش کیے ۔اس کے بعد متصلاًمظاہرِ علوم وقف سہارنپور کے نائب مفتی و استاذ، حضرت مولانا مفتی محمود عالم مظاہری دامت برکاتہم نے معاملات و معاشرت پر تقریباً پونے گھنٹے کا پر مغز خطاب کیا، جس میں یہ اہم نکتہ ذہن نشین کرانے کی بلیغ کوشش کی کہ دین محض چند عبادات کا نام نہیں، بلکہ معاملات و معاشرت بھی دین کا حصہ ہیں، اس لیے کہ تجارت، معاشرت، معاملات نیز تمام شعبہ ہاے حیات میں اسلام نے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جس کا پاس و لحاظ رکھنا ضروری ہے ۔انھوں نے کہا کہ موجودہ دور میں اسلامی نکاح و طلاق کو لے کر جو چے مے گوئیاں کی جا رہی ہیں،اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ خود مسلمانوں نے اس شعبے میں بے احتیاطیاں کی ہیں۔ اکثر لوگ ان نازک مسائل کو جانتے ہیں اور نہ ان پر عمل کرتے ہیں،اسی لیے اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ لوگ کہا کرتے ہیں کہ مولوی کافر بناتے ہیں، جب کہ وہ کافر نہیں بناتے بلکہ کفر کرنے والے کو کافر بتاتے ہیں۔ نیز موجودہ دور کے لحاظ سے انھوں نے دینی مسائل کو سمجھنے کے لیے خاص طور سے الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن انڈیا کے جواں سال بانی و صدر مولانا ندیم احمد انصاری کی علمی و تحقیقی تصنیفات سے استفادے کا مشورہ دیا اور ان تصنیفات پر اعتماد کا اظہار فرمایا۔
اجلاس کی نظامت کے فرائض مرکز المعارف، ممبئی کے استاذ و مفتی جسیم الدین قاسمی انجام دے رہے تھے، جنھوں نے الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیااور اس کے بانی و ڈائریکٹر کا مختصر تعارف بھی پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت یہ ادارہ اور اس کے بانی مولانا ندیم احمد انصاری کی خدمات کا دائرہ ہند و پاکستان سے نکل کر عرب و ایران تک پہنچ چکا ہے۔ ان کی ایک درجن کتابیں طبع ہو چکی ہیں اور ساٹھ سے زیادہ رسالے ادارے کی ویب سائٹ afif.in پر موجودہیں۔یہی نہیں بلکہ ان کے دینی، سماجی، سیاسی اور ادبی موضوعات پر لکھے گئے مضامین تمام مرکزی دینی اداروں و مشہور مجلات اور اخبارات و رسائل میں مستقل شایع ہوتے رہتے ہیں۔اس اجمالی تعارف کے بعد مولانا ندیم احمد انصاری کی متعدد کتابوں کے اجرا کی رسم ادا کی گئی، جس کے لیے تعلیم اسلام، مومن اور اسلامی سال، معارف دعوت و تبلیغ، قرآنیات، رسائل ابن یامین، خلع کا نظام اور ذوقِ ادب وغیرہ کی کاپیاں حضرت مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی، حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمن فتحپوری، حضرت مولانا مفتی محمود عالم مظاہری، حضرت مولانا برہان الدین قاسمی کو پیش کی گئیں۔ تمام اکابرین نے مولانا ندیم احمد انصاری کو ان کی اس گو نا گو گراں قدر خدمات پردادِ تحسین پیش کی اور دعاؤں سے نوازا۔
تقریبِ رسمِ اجرا کے بعد پر دارالعلوم وقف دیوبند کے محدِّث حضرت مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی دامت برکاتہم نے طویل و عمدہ خطاب فرمایااور اپنی دریائے علم سے عمدہ جام پیش کرتے رہے ، جس سے سامعین خوب محظوظ ہوئے ۔ حضرت مولانا نے ایک طرف رحمتِ اسلام کی عالمگیریت بلکہ آفاقیت پر روشنی ڈالی، وہیں تاریخ کے حوالوں سے یہ بھی بتایا کہ اسلام سراپا رحمت ہے ، جس نے ہمیشہ دنیا میں رحمت کی ہوائیں عام کی ہیں۔انھوں نے کہا کہ یہ بات سو فی صد سچ ہے کہ اسلام اپنے عمدہ اخلاق کی بہ دولت ہی دنیا میں پھیلا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی یوروپین ممالک میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔اس عمدہ کلام کے اختتام سے قبل حضرت مولانا موصوف نے مولانا ندیم احمد انصاری سے حدیث پڑھواکر انھیں حدیث کی اجازت بھی مرحمت فرمائی اور حضرت موصوف کی سندِ حدیث نہایت عالی ہے۔پھر سندِ حدیث اور اجازتِ حدیث پر نہایت اخصار سے روشنی ڈالی۔
اس روح پرور منظر کے بعد اجلاس کے صدر اور مہاراشٹر کے مفتیِ اعظم حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن فتحپوری دامت برکاتہم نے صدارتی خطبہ پیش کیا، جس میں تلقین کی کہ عوام علماسے ربط رکھیں اور دینی کتابوں کے مطالعے کی عادت ڈالیںاور یہ ضرور دیکھ لیں کہ وہ کتاب معتبر بھی ہے یا نہیں۔ حضرت مفتی صاحب نے مولانا ندیم احمد انصاری کی جواں سالی میں ان خدمات کا اعتراف بھی کیا، نیز ان کے اور ان کی تصنیفات کے مقبولیت کی دعا کرتے ہوئے جامع والہانہ دعا پر اجلاس کو اختتام تک پہنچایا۔اس عظیم الشان اور رنگا رنگ اجلاس میں کثیر بلکہ اندازے سے زیادہ تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور تا حدِ نگاہ لوگوں کے سر نظر آرہے تھے ، بیٹھنے کی جگہ کی کمی ہونے پر بہت سوں نے کھڑے کھڑے اس دینی مجلس سے پوری بشاشت کے ساتھ استفادہ کیا۔ خواتین کے لیے معقول انتظام تھا، جہاں ان کی کثیر تعداد موجود تھی،اور انھوں نے سنجیدگی و متانت کے ساتھ آخری لمحے تک اجلاس میں اپنی دینی بیداری کا ثبوت فراہم کیا۔
مہمانان میں خصوصیت سے مولانا رشید احمد ندوی (جنرل سکریٹری انجمن اہلِ سنت والجماعت، ممبئی)،مولانا شاہ نواز بدر قاسمی(میڈیا کو آرڈینیٹرطیب ٹرسٹ، دہلی)، مفتی فیاض عالم قاسمی (قاضی دارالقضاء، ناگ پاڑہ، ممبئی)،مفتی اشفاق قاضی (مفتی جامع مسجد ممبئی)، مفتی رحمت اللہ قاسمی (مفتی مدینۃ المعارف، جوگیشوری)، مفتی محمد شعیب(امام و خطیب بازار والی مسجد، ماہم)مفتی شرفِ عالم قاسمی (امام و خطیب گھاٹکوپر)، مفتی مہدی حسن قاسمی(استاذ دارالعلوم اسلامیہ، ارلا، ممبئی) ، مولانا حفاظ الدین (امام جامع مسجد، باندرہ)، مفتی محمد راشد (خطیب نوپاڑہ جامع مسجد)،مولانا فرید قاسمی اور مفتی حسیب الرحمن وغیرہ وغیرہ نے شرکت کی، جب کہ اجلاس کی تیاریوں میں شروع سے لے کر آخر تک مفتی محمد بلال (دارالافتاء والارشاد، باندرہ)،مولانا محمد عمران (مدرس تعلیم الدین) اور مولانا بذلِ الٰہی(مؤذن جامع مسجد، باندرہ) کے ساتھ ساتھ مقامی لوگ بھی پوری تن دہی سے لگے رہے ۔

http://afif.in/al-falah-islamic-foundation-india-aur-uske-baani-ki-khidmaat-qabil-e-qadr-aur-layaq-e-tahseen-hain-maulana-muhammad-islam-qasmi/

Al Falah Islamic Foundation, India ka Qaumi Jalsa

الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا
کے زیرِ اہتمام عظیم الشان قومی اجلاس کا انعقاد بعنوان
اسلام سراپا رحمت



صدرِ جلسہ:
حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن فتح پوری مدظلہ
(مفتیِ اعظم مہاراشٹر)
ناظمِ جلسہ:
حضرت مفتی جسیم الدین قاسمی مدظلہ
(استاذ و مفتی مرکز المعارف، ممبئی)
خطاب:
معاشرت و معاملات بھی اسلام کے مطابق ہونا ضروری
حضرت مولانا مفتی محمود عالم مظاہری مدظلہ
(استاذ و نائب مفتی مدرسہ مظاہرِ علوم وقف سہارنپور)
رسمِ اجرا:
الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کی چند مطبوعات
تعارف: الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا
حضرت مفتی جسیم الدین قاسمی مدظلہ
(استاذ و مفتی مرکز المعارف، ممبئی)
خطاب:رحمتِ اسلام سب کے لیے
حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی دامت برکاتہم
(استاذِ حدیث و صدر شعبۂ عربی ادب دارالعلوم وقف دیوبند)
دعا و خطبۂ صدارت
حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن فتح پوری دامت برکاتہم
(مفتیِ اعظم مہاراشٹر)

http://afif.in/al-falah-islamic-foundation-india-ka-qaumi-jalsa/

Wednesday 8 March 2017

Sadr-e-Jamhooriyah-e-hind ki talqeen aur dam todti jamhooriyat

صدرِ جمہوریۂ ہند کی تلقین اور دم توڑتی جمہوریت



ندیم احمد انصاری


یوں تو گذشتہ چند دہوں سے ہندستانی جمہوریت کو کھوکھلا کرنے کی پیہم کوششیں جاری ہیں، لیکن بی جے پی حکومت کے دورِ اقتدار میں اس جانب جس تیزی سے پیش رفت ہوئی، اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ گنگا جمنی تہذیب والا ملک اس وقت بھگوائیوں کے نرغے میں ہے اور ہر آن یہ کوششیں جاری ہیں کہ دنیا کی اس عظم ترین جمہوریت کو ہندوراشٹر میں تبدیل کر دیا جائے۔ جن لوگوں کو بصارت کے ساتھ بصیرت کی دولت ملی ہے، وہ ان خطروں کو پہچانتے اور ملک کی مشترکہ تہذیب کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ حقیقت یہی ہے کہ میڈیا وغیرہ پر جس طرح بھگوائیوں کا غلبہ ہے، اس سے آتشِ نفرت کے مزید بھڑکنے اور ملک کی سالمیت کو خاکستر کرڈالنے میں مدد مل رہی ہے۔بات گجرات فساد کی ہو یا دادری، بابری اور مظفر نگر کی، مسئلہ کنھیا کا ہو یا نجیب کا، معاملہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے متعلق ہو یا جوہر لال نہرو یونی ورسٹی سے، ہر ایک میں ڈبل اسٹینڈرڈ اور عدم رواداری کا نظارہ دیکھنے کو مل رہا ہے اور ہر جگہ جمہوریت تار تار ہو رہی ہے، اور ہم کفِ افسوس مَلنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتے۔ یقیناً یہ صورتِ حال لمحۂ فکر ہے کہ کیا واقعی آنے والے دنوں میں اس میں کوئی خوش گوار تبدیلی ہوگی یا اسی طرح دھرم و مذہب کے نام پر انسانیت کی بَلیاں چڑھائی جاتی رہیںگی!
حدتو یہ ہے کہ ملک کا وزیرِ اعظم دیوالی اور رمضان کے نام پر تفریق کا قائل ہے، اس کے وُزرا میں سے کوئی بابری مسجد کا مسئلے کو ہوا دے رہا ہے تو کوئی زندوں سے آگے بڑھ کر مُردوں پر اوچھی سیاست کرنے میں سرگرمِ عمل ہے۔ فیس بک وغیرہ پر جا کر دیکھیے کہ کیسی گندی اور چھوٹی سوچ کو عام کیا جا رہا ہے، اور اقلیتوں کے صبر کے پیمانے کو چھلکانے کی کیا کچھ کوششیں نہیں کی جا رہیں، یہ تو خدا کا شکر ہے کہ ملک میں اب بھی کچھ دور اندیش موجود ہیں، جن سے جمہوریت قائم ہے، ورنہ ان لوگوں کا تو حال یہ ہے کہ بچی ہوئی کسر پوری کرنے کے لیے کنیڈا سے تاریک پھٹے جیسوں کو امپورٹ کر رہے ہیں، جس کا کام صرف اور صرف اس مشترکہ تہذیب کو آگ لگانا اور ہندوومسلمانوں میں الگاؤ پیدا کرنا ہے۔ یقین جانیے ان سب سے ہمارا مقصد ناامید و خائف کرنا نہیں، لیکن متوجہ کرنا ضرور ہے، ہر اس دل و دماغ کو جن کے سینوں میں انسانیت کا درد ہے۔
ان حالات میں2 مارچ 2017ءکو خبر شائع ہوئی کہ دہلی یونیورسٹی کے رام جس کالج میں جاری تنازعے کے درمیان صدر پرنب مکھرجی نے یونیورسٹیوں کو مشورہ دیا کہ وہ بدامنی کے ماحول کو فروغ دینے کے بجائے منتقی بحث کے رجحان کو بڑھاوا دیں، ملک میں کسی عدم روادار ہندستانی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔دورانِ خطاب انھوں نے کہا کہ ملک کی مختلف یونیورسٹیوں کو اپنے احاطے میں بدامنی کے ماحول کو فروغ دینے کے بجائے منطقی بحث کو فروغ دینا چاہیے،اور قومی مقاصد اور حب الوطنی کے جذبے کو فروغ دے کر ہی ہم اپنے ملک کو مسلسل ترقی اور خوش حالی کی راہ پر لے جا سکتے ہیں۔دراصل واقعہ یہ ہے کہ 24 فروری 2017ء بروزجمعہ دہلی یونیورسٹی کے متعدد کالجوں کی طالبات نے اے بی وی پی کی مخالفت میں سوشل میڈیا پر مہم شروع کی تھی، جس میں طالبات نے ہاتھ میں "میں اے بی وی پی سے نہیں ڈرتی لکھا پوسٹر لے کر اپنی تصویریں شیئر کی تھیں، ان میں سے ایک لیڈی شری رام کالج کی طلبہ گرمیہر کور تھی، جس نے خود کو ایک شہید کی بیٹی بتایا تھا۔اے بی وی پی کی مخالفت کے ساتھ ساتھ حمایت میں بھی دہلی یونیورسٹی کی کئی طالبات نے فیس بک وال پر اپنی تصویر شیئر کی، ان تصویروںمیں لکھا تھا کہ ملک دشمن عناصر کے خلاف "میں اے بی وی پی کی حمایت کرتی ہوں۔ یہ مخالفت اور حمایت کی مہم ہفتے یعنی 25فروری کو سوشل میڈیا پر خوب چھائی رہی اور ہزاروں لوگوں نے طالبات کی پوسٹ کو لائک اور شیئر کیا، حتّٰی کہ اے بی وی پی کی مخالفت اور حمایت میں ڈی یو کے باہر کے لوگ بھی میدان میں آگئے اور جے این یو کے طلبہ اے بی وی پی کی مخالفت میں اپنی تصویریں سوشل میڈیا پر شیئر کرتے رہے۔وجہ یہ تھی کہ بدھ کو اے بی وی پی اور آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (اسا) کے کارکنوں کے درمیان جھڑپ ہوگئی تھی،کیوں کہ ایک دن پہلے ہی اے بی وی پی نے رام جس کالج میں منعقد اس سیمینار کو زبردستی منسوخ کرا دیا تھا، جس میں جے این یو کے طالب علم عمر خالد کو مدعو کیا گیا تھا۔کہا جا رہا ہے کہ رام جس کالج میں عمر خالد اور شہلا رشید کو کالج کی لٹریری سوسائٹی نے ایک ٹاک میں حصہ لینے کے لیے بلایا تھا،خالد کو "دی وار ان آدی واسی ایریا کے موضوع پر بولنا تھا، لیکن اے بی وی پی کی مخالفت کی وجہ سے رام جس کالج کو یہ منسوخ کرنا پڑا،جس پر سیاست کا بازار بھی گرم ہو گیا اور اسی پس منظر میں صدرِ جمہوریہ کا مذکورہ بالا بیان سامنے آیا،جس سے ہمیں قطعاً اختلاف نہیںاور ہم اس بیان کی قدر کرتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عدم رواداری کا مظاہرہ اور جمہوریت کو پاش پاش کرنا صرف ان یونی ورسٹیوں تک محدود نہیں رہ گیا ہے، بلکہ سیاست کے میدان میں اس وقت یہی کرتب سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ فیس بک پر جاری ایک ویڈیو کے مطابق بعض بھگوا لونڈے پولیس کے جوانوں کو بھی دوڑا دوڑا کر مار رہے ہیں، اور ان سے کوئی پرسش کرنے والا بھی نظر نہیں آیا، گویاعدم رواداری اور اکثریت کے دم پر ہر غیر مہذب حرکت کر جانا اب اس ملک کا مقدر ہو چکا ہے۔
جس ملک میں پردھان سیوک اپنے منصب سے نیچے اتر کر دیوالی و رمضان میں بجلی کے نام پر تفریق کرنے کی کوشش کرے، اوراور ساکشی مہاراج جیسے لوگ مُردوں پر سیاست کرنا چاہیں، وہاں سابق مرکزی و زیرسیف الدین سوز کا یہ کہنا بالکل بجا ہے ’’ اب اس بات میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ ہندوستان کا وہ تصور، جوسکیولرزم ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی، قومی یکجہتی اور سماجی رواداری سے تعبیر کیا جاتا تھا ،اُس کو ختم کیا جا رہا ہے! ـ‘‘ ان حالات میں صدرِ جمہوریہ کو صرف تلقین نہیں بلکہ مثبت اقدام کی ضرورت ہے۔
nadeem@afif.in

http://afif.in/sadr-e-jamhooriyah-e-hind-ki-talqeen-aur-dam-todti-jamhooriyat/