Tuesday, 28 July 2015

دنیاکے پہلے مترجمِ قرآن مسند الہندحضرت شاہ ولی اللہ محدِّث دہلویؒ


مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن،انڈیا)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ ۱۰؍فروری۱۷۰۳ء بمطابق ۴؍شوال۱۱۱۴ھ،چہار شنبہ کے دن طلوعِ آفتاب کے وقت ،قصبہ پھلت ،مظفر نگر،یو پی،ہند میں پیدا ہوئے۔تاریخِ ولادت ’’عظیم الدین‘‘سے نکلتی ہے۔عارف باللہ حضرت مولانا شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلۂ نسب ۳۰؍واسطوں سے حضرت امیر المؤمنین ،خلیفۂ دوم ،فاروق اعظم حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔شجرۂ نسب یہ ہے:شاہ ولی اللہ بن الشیخ عبد الرحیم بن الشہید وجیہ الدین بن معظم بن منصور بن احمد بن محمود بن قوام الدین عرف قاضی قاذن بن قاضی قاسم بن قاضی کبیر عرف قاضی بدہ بن عبدالملک بن قطب الدین بن کمال الدین بن شمس الدین بن سید ملک بن عطا ملک بن ابو الفتح ملک بن عمر حاکم ملک بن عادل ملک فاروق بن جرجیس بن احمد بن محمد شہریار بن عثمان بن ماہان بن ہمایوں بن قریش ابن سلیمان بن عفان بن عبداللہ بن محمد بن عبداللہ ؓبن عمر ؓبن الخطاب۔
شاہ ولی اللہ صاحبؒ کے والد ماجدشاہ عبد الرحیم صاحبؒ ’’فتاویٰ عالگمگیری‘‘کو ترتیب دینے والی جماعتِ علماء میں شامل اور ملک کے ممتاز ترین فقہ حنفی کے عالم وصاحبِ نظر وصاحبِ درس فقیہ تھے۔اس جماعت کے نگراں کار اور صدر شیخ نظام الدین برہان پوری تھے۔سلطان اورنگ زیب عالم گیرؒ نے اس کام پر (اپنے زمانے میں)دو لاکھ روپیے صَرف کیے۔مصنفِ’’الثقافۃ الاسلامیۃ فی الہند‘‘نے بڑی تحقیق وتفحص وتحقیق کے بعد اس کے مرتبین کے نام پیش کیے ہیں،جن کی تعداد اکیس ہوتی ہے۔حضرت شاہ عبد الرحیم صاحبؒ بھی اس جماعت کے ایک رکن رکین تھے۔
پانچ سال کی عمر میں قرآن مجید پڑھنے کے لیے مکتب میں بیٹھے،سات سال کی عمر میں آپ کے والد ِ بزرگوارحضرت مولانا شیخ عبد الرحیم صاحبؒ نے آپ ؒ کو نماز پر کھڑا کیااور رمضان میںروزہ رکھوایا،پھر فارسی کی درسی اور ابتدائی صرف ونحو کی کتابیںاوردسویں سال’’ شرح ملاجامی‘‘ شروع کروائی۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ (اس وقت تک)مجھ میں بالجملہ مطالعہ کی استعداد پیدا ہوگئی تھی۔چودہ سال کی عمر میں ’’بیضاوی ‘‘کا ایک حصہ پڑھا،پندرہ سال کی عمر میں ہندوستان میں رائج تمام علومِ متعارفہ یعنی کتبِ تفسیر،حدیث ،فقہ،اصولِ فقہ،علمِ منطق،کلام ، سلوک،حقائق وخواص اسماء وآیات، طبّ، حکمت، نحو اور ہندسہ وحساب وغیرہ سے فارغ التحصیل ہو گئے۔اسی سال آپؒ کے والد ماجد ؒنے آپ کے سر پر فضیلت کا عمامہ رکھا اور درس کی عام اجازت دی اور اس تقریب کی خوشی میں تمام شہر کے مشائخ وقضاۃ وفقہاء کی دعوت کی اور دستار بندی کی رسم ادا کی۔
اسی سال شیخ عبد اللہ پھلتی ؒ کی صاحب زادی سے آپؒ کا عقد ِنکاح ہوا۔ان سے آپ ؒ کے بڑے بیٹے شیخ محمد پیدا ہوئے،جنھوں نے آپؒ ہی سے تعلیم پائی۔موصوف شاہ صاحبؒ کی وفات کے بعد قصبہ بڈھانہ منتقل ہوگیے اور مدۃ العمر وہیں رہ کر ۱۲۰۸ھ میں وفات پائی۔اسی بنا پر شاہ صاحب ابو محمد کنیت کرتے تھے۔اسی زمانہ میں شاہ صاحبؒ کے والد بزرگوار نے سفرِ آخرت قبول فرمایا،بعدہٗ آپ اپنے والد ِ بزرگ وار کی جگہ قائم مقام اور سجادہ نشین ہوئے اور طالبانِ ہدایت کو راہِ راست پر لگانا شروع کیا۔کتبِ دینیہ وعقلیہ کی تدریس کا سلسلہ جاری کیا،جوق در جوق لوگ آنے شروع ہوگئے،سیکڑوں طالبانِ علم مستفیض ہونے لگے،عجیب و غریب کتابیں تصنیف کیں، جنھیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔شاہ صاحبؒ کی تصانیف علومِ دینیہ میں روشنی کا ایک مینار ہیں۔طبیعت میں اجتہادی قوت تھی،نئے نئے نکات نکالے،زمانہ میں شہرت حاصل کی ،مسلَّم الثبوت مانے گیے ،حال یہ ہے کہ آج بھی موافق،مخالف سب آپؒ کے اقوال سے سند پکڑتے ہیں۔
آپؒ کا دوسرا نکاح مولانا سید حامد صاحب سونی پتی ؒکی دختر کے ساتھ ہوا،جن کے بطن سے حضرت شاہ عبد العزیز صاحبؒ،شاہ رفیع الدین صاحبؒ ،شاہ عبد القادر صاحبؒ اور شاہ عبد الغنی صاحبؒ پیدا ہوئے۔یہ تمام حضرات بھی اپنے وقت کے مستند عالم،فاضل،عارف،کامل،محدث،مفسّرہوئے۔رات دن دینی اشاعت میں مصروف رہے اورلِلّٰہ قرآن و حدیث کا درس دیتے رہے۔
شاہ صاحبؒ کی تصانیف کی تعداد چالیس کے قریب ہے،صرف علمِ حدیث میں ہی متعدد کتابیں :(۱)الدرالثمین فی مبشرات النبی الامینﷺ (۲)النوادر من احادیث سید الاوائل والاواخرﷺ(۳)المسلسلات من حدیث النبی ﷺ(۴)اربعون حدیثا مسلسلات بالاشراف فی غالب سندھا(۵)الإرشاد إلی مہمات علم الاسناد(۶)شرح تراجم ابواب صحیح البخاری (۷)المسویٰ من الاحادیث المؤطا(۸)المصفیٰ شرح المؤطا(۹)رسالہ در فضیلت بخاری(۱۰)حجۃ اللہ البالغۃ…وغیرہ بہت مشہور ومعروف ہیں۔
شاہ صاحب ؒ کے خاص کارنامے مختصر طور پریہ ہیں کہ انھوں نے مسلمانوں کے مختلف علمی اور فقہی طبقوں کے افکار میں مطابقت کے پہلو نمایاںکرکے ان کے درمیان صلح وآشتی پیدا کرنے کی کوشش کی اور اختلافی مسائل میں الجھے رہنے کے بجائے انھیں متفق علیہ مسائل کی طرف مائل کیا ۔تطبیق ان کا خاص فن ہے۔انھوں نے تعلیمی نصاب کے پرانے ڈھانچے میں اصلاح وترمیم کو بہ طورِ خاص پیشِ نظر رکھا اور اسے عقلی موشگافیوں یا نظری الجھنوں سے بہ حدِّامکان پاک کردیا۔عقیدہ وعمل کی بہت سی خرابیاں دور کرنے کی کوشش کی اور امیر وغریب کے درمیان جن طبقاتی کشمکش کا آغاز ہو چکا تھا،اسے رفع کرنے کے لیے کتاب وسنت سے اقتصادی اور معاشی نظریے پیش کیے۔اسرار ِ شریعت کی توضیح میں شاہ صاحبؒ جیسے عالم بہت کم نظر آتے ہیں۔قرآنِ حکیم کا پورے عالم میں پہلی بار ترجمہ کیاجو فارسی زبان میں تھا،جس پر آپ ؒ کی سرزنش بھی ہوئی اور دہلی کے چاندنی چوک پر کھڑا کرکے آپ کو کوڑے لگائے گیے۔قرآن حکیم کے ترجمے اور احادیثِ شریفہ کی تعلیم انھیں کی بدولت عمومی طور پر اشاعت پذیر ہوئی۔
الغرض شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کے یہاںدرس وتدریس اور ہدایت کا بازار ہر وقت گرم رہتا تھا۔لاکھوں شاگردہزاروںمرید ہوئے اور سیکڑوں طالب بنے۔بالآخر اس بیش قیمت وبابرکت مدتِ حیات کے ؛جس کا ایک ایک لمحہ قیمتی ،اسلام ومسلمانوں کے لیے مفیداور احیاء سنت ،قرآن وحدیث کی نشر واشاعت ،تعلیم وتربیت ،یادِ الٰہی اور اعلائِ کلمۃ اللہ کی فکر میں مصروف تھا…خاتمہ کا وقت آگیا،جس سے{ کل نفس ذائقۃ الموت }کے اعلان ووعدہ کے مطابق مخلوقات ِ عالم میں سے کوئی مستثنیٰ نہیںاور شنبہ کے روز ۱۹؍محرم الحرام ۱۱۷۶ھ،تریسٹھ سال کی عمر میں حضرت شاہ صاحبؒ اس دار فانی سے کوچ کر گیے۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
مآخذ:(۱) دائرہ معارف اسلامیہ،لاہور(۲۰۰۳ء)(۲) تاویل الاحادیث ،مطبع احمدی،دہلی (۳)الثقافۃالاسلامیۃ فی الہند(اردو) (۴)تاریخِ دعوت وعزیمت اور (۵) شاہ ولی اللّٰہ کی خدماتِ حدیث وغیرہ۔
alfalahislamicfoundation@gmail.com

No comments:

Post a Comment