Thursday 4 June 2015

 حج کمیٹی آف انڈیا کا قابلِ ستائش اقدام
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
کہتے ہیں ’دیر آئے، درست آئے‘۔یہ جملہ اپنے معنوں میں حج کمیٹی آف انڈیا کے لیے اس وقت نہایت موزوں نظر آیا،جب حج کمیٹی نے ’قربانی کی لازمی فیس سے متعلق اپنا جبری فیصلہ‘ واپس لینے کا اعلان کیا۔گذشتہ دنوں حج کمیٹی آف انڈیا نے حج میں قربانی کی فیس لازمی قرار دے کر ایسا متنازعہ فیصلہ کیا تھا، جس پر مختلف مسلم تنظیموں، اہم شخصیتوں اور تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور اسے شریعت کے خلاف گر دانا تھا، اس کے خلاف میمورینڈم پیش کیے گئے تھے اور اس خلافِ شریعت فیصلے کو بدلنے پر زور دیا گیا تھا اور تو اور خود حج کمیٹی کے سابق صدر نے بھی اس غیر مناسب فیصلے کے خلاف میمورینڈم پیش کیا تھا۔ اہل قلم نے اس کی تردید میں مضامین و مقالات بھی تحریر کیے تھے اور اس بات کی کوشش کی گئی تھی کہ حج کمیٹی اپنے فیصلے پر نہ صرف نظرِ ثانی کرے بلکہ اس فیصلے کو واپس لے، جس کی اصل وجہ یہ تھی کہ قربانی، حج کمیٹی کی ذمے داری نہیں بلکہ ایک عازمِ حج کی ذاتی ذمے داری ہوتی ہے، لہٰذا حج کمیٹی کا اس کے ساتھ کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے، اگر کوئی متمتع یا قارن کسی عذر کی بنا پر قربانی پیش نہیں کرسکتاتو خود اللہ تعالیٰ نے اسے یہ اجازت دی ہے کہ وہ اس کے بدلے دس روزے رکھ لے، تین زمانۂ حج میں اور سات حج کے بعد اور مُفرِد پر تو یہ قربانی سرے سے لازم ہی نہیںبلکہ مستحب ہے، لہٰذا حج سے پہلے ہی قربانی کی لازمی فیس وصول کرنا سراسر ظلم اور زیادتی ہوتا،جسے فوری طور پر ختم کیا جانے کی مانگ کی جارہی تھی۔ اس مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حج کمیٹی نے جو رقم عازمین سے لینا طے کیا تھا، وہ عام قربانی کی قیمت سے زیادہ تھی یعنی اس سے کم رقم میں حاجی خود جانور خرید کر اپنی قربانی پیش کر سکتا تھا، جس کے باعث حج کمیٹی کو عبادت کو تجارت بنانے جیسے جملوں سے بھی مطعون ہونا پڑا۔
 بالآخر اس غلط فیصلے کے خلاف قلم اور آواز اٹھانے والوں کی محنت اس وقت ٹھکانے لگی جب حج کمیٹی نے یہ اعلان کیا کہ اب عازمینِ حج کو کوپن لوٹانے کی چھوٹ دی جائے گی اور اگر عازمینِ حج کسی وجہ سے حج کمیٹی کے زیر اہتمام قربانی نہ کرنا چاہیں، تو انھیں اس کا اختیار حاصل ہوگا۔یہ قابلِ ستائش امر ہے کہ(ایس این بی کے مطابق) اب حج کمیٹی نے نیا سرکولر نمبر ۲۱؍جاری کیا ہے، جس کے مطابق اول تو اب قربانی کا کوپن ۴۹۰؍کے بجائے ۴۷۵؍سعودی ریال میں فراہم کیا جائے گا، ساتھ ہی اگر عازمینِ حج ، حج کمیٹی کے زیر اہتمام قربانی نہ کرنا چاہیں اور کسی دوسرے کے توسط سےقربانی کریں تو وہ اپنا کوپن لوٹانے کے مجاز ہوں گے۔ اس سرکولر کے مطابق انھیں یہ کوپن دیا تو جائے گا لیکن اس اختیار کے ساتھ کے چاہے وہ اسے رکھیں یا لوٹا کر اس مد میں کٹی ہوئی رقم واپس لے لیں۔یہ ایک اچھی بات ہے کہ حج کمیٹی نے ایک غیر شرعی مسئلےسے توبہ کر لی اور اس معاملہ میں عازمینِ حج کو اختیار دے دیا، اب ان میں سے جو چاہے کمیٹی کی فراہم کردہ سہولت حاصل کرے اور جو چاہے اس سہولت سے انکار کر دے۔
 ہونا بھی یہی چاہیے، اس لیے کہ حج جیسی عبادت اور اسلام کا عظیم ترین رکن، جو کہ اصلاً صاحبِ استطاعت پر فرض ہوتا ہے لیکن اہلِ اسلام میں سے اکثر اس مبارک سفر کی ہمیشہ نہ صرف تمنائیں کرتے ہیں بلکہ اس کے لیے اپنے خون پسینے کی کمائی کو جوڑ جوڑ کر رکھتے ہیں، اگر اس فیصلے کو واپس نہ لیا جاتا تو ان توحید کے دیوانوں کے ساتھ یہ سراسر ظلم ہوتا۔ ویسے بھی سابقہ فیصلے کے مطابق حج کی ہر قسم پر یہ لازمی فیس دینا قرار پایا تھا، جب کہ حجِ افراد کرنے والے کے لیے قربانی محض مستحب ہے۔ہم اپنے ایک مضمون میں واضح کر چکے ہیں کہ اس کے علاوہ بھی اس فیصلے سے کئی خلافِ شرع امور پائے جانے کا خدشہ تھا، جو کہ خدا کا شکر ہے اطالاعات کے مطابق اب ٹل گیا۔
جس طرح اس غلط فیصلے کے خلاف صحیح طرز پر علماء اور عوام کی مخالفت سامنے آئی اور اس کا جو مثبت نتیجہ برآمد ہوا، اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اگر ہم حق کے لیے ، حق طریقے پر آواز اٹھانا سیکھ لیں، تو حق کو قائم کیا جا سکتا ہے، لیکن آج المیہ یہ ہے کہ ہم اس جانب کماحقہ توجہ نہیں دیتے، جس سے غلط سلط باتیں ہم پر تھوپ دی جاتی ہیں۔ ہم اگر واقعی کسی بھی طرح کی خوش گوار تبدیلیوں کے خواہاں ہیں، تو اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے مزاج و طریق میں خوش گوار تبدیلیاں لانی ہوں گی۔قرآن کریم میںہے: (ترجمہ)بے شک الله تعالیٰ کسی قوم کی حالت میں تغیر نہیں کرتا جب تک وہ لوگ خود اپنی حالت کو نہیں بدل دیتے۔(سورہ رعد: ۱۱)

No comments:

Post a Comment