Saturday 20 June 2015


ہے وہی اللہ، بارش آسماں سے جس نے کی
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
جمعرات و جمعہ (۱۸؍۱۹جون ۲۰۱۵ء) کو ممبئی و مضافات میں موسلادھار بارش سے جیسے زندگی تھم سی گئی، لائف لائن کہی جانے والی لوکل ٹرینوں کی خدمات منسوخ ہونے سے ہزاروں مسافر جہاں تھے وہیں پھنس رہ گئے،زبردست بارش سے ٹریفک بھی متاثر ہوئی اور طیاروں کے نظام میں بھی گڑبڑی آئی۔ محکمۂ موسمیات نے آئندہ۴۸؍گھنٹوں میں بھاری بارش جاری رہنے کی خبر د ی تھی، اس لیے ممبئی والوں کو سنیچر واتوار کی چھٹیاں گھر میں بیٹھ کر ہی خرچ کرنی پڑ سکتی ہیں۔ شہر کے تمام اسکولوں کو بھی بند کر دیا گیا ہے اور بعض امتحانات تک منسوخ کر کردیے گئے ۔ بارش کی وجہ سے ممبئی کے اکثر علاقوں میں پانی بھرگیا اور  ریاست کے وزیر اعلی نے لوگوں کو سمندر کے کناروں سے دور رہنے کی ہدایت دی۔محکمۂ موسمیات کے مطابق گزشتہ۲۴؍ گھنٹوں کے دوران (۱۹؍جون کی   صبح آٹھ بجے تک) شہر میں۱۸۸؍ ملی میٹراور مشرقی مضافات میں۱۵۵؍ ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔
بے شک اللہ ہی ہے،جو آسمان سے بارش کرتا ہے، جس میں جانداروں کے لیے زندگی کا سامان ہے۔بارش حیوانات کی زندگی کے لیے نہایت ہی ضروی ہے، اسی کے ذریعے حیوانات کے رزق کا انتظام ہوتا ہے۔ بارش نہ ہو تو سوکھا پڑ جاتا ہے اور انسان اور جانور سب پیاس سے تڑپنے لگتے ہیں لیکن یہی بارش اگر مقدار میں ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو بھی انسانی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے، کہیں سیلاب آتے ہیں تو کہیں فصلیں اجڑ جاتی ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی ذات ہے،جو تمام کائنات کی پالن ہار ہے،جس کے قبضہ ٔ قدرت میں زمین وآسمان کے خزانے ہیں،جس کی اجازت کے بغیر کسی درخت کا کوئی پتہ نہیں ہلتا۔وہی ہے جس نے اس عالم ِرنگ و بو کو وجود بخشا،اسی کے لطف وکرم سے کائنات کا نظام چل رہا ہے اور وہ جب چاہے گا،آن کی آن میں سب تہہ و بالا کر دے گا۔کون ہے جو اس کے سامنے لب کُشائی کرے؟ کون ہے جو اس سے وجہ طلب کرے؟ کون ہے جو اس کی قدرت کا ادراک کر سکے؟ اس کائنات میں ایسا کوئی نہیں، اس لیے کہ وہ خالق ہے،باقی سب مخلوق ہیں،وہ مالک ہے،باقی سب مملوک ہیں،وہ غنی ہے،باقی سب فقیر ہیں۔وہ جب چاہتا ہے،جہاں چاہتا ہے،جو چاہتا ہے،جیسے چاہتا ہے،کرتا ہے۔اسے اس کا حق بھی ہے اور قدرت بھی۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاءَ بِنَاءً وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ  مَاءً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّکُمْ،  فَلاَ  تَجْعَلُوْا  لِلّٰہِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ}۔
(یعنی اللہ تعالیٰ ربِّ کائنات ہے اور ربّ وہ ہے) جس نے تمھارے لیے زمین کو فرش بنایااور آسمان کو چھت اور آسمان سے پانی برسایا،پھر اس پانی کے ذریعے عدم سے تمھارے لیے پھلوں کی غذا نکالی۔تو اب تو اللہ کا مقابل نہ ٹھہراؤ اور تم جانتے بوجھتے ہو۔(سورۃ البقرۃ:۲۲)
یہاں ان آفاقی نعمتوں کا ذکر فرماکر تمام اقسامِ نعمت کا احاطہ فرمایا گیاہے۔ان آفاقی نعمتوں میں سے زمین کی پیدائش کا ذکر ہے کہ اس کو انسان کے لیے فرش بنا دیا۔نہ پانی کی طرح نرم ہے،جس پر قرار نہ ہو سکے اور نہ لوہے،پتھرکی طرح سخت کہ اسے آسانی سے استعمال نہ کر سکیں بلکہ نرمی اور سختی کے درمیان ایسا بنایا گیا،جو عام انسانی ضروریات ِ زندگی میں کام آ سکے۔دوسری نعمت یہ کہ آسمان کو ایک مزین اور نظر فریب چھت بنا دیا۔تیسری نعمت یہ ہے کہ آسمان سے پانی برسایا،آسمان سے پانی برسانے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ بادل کا واسطہ درمیان میں نہ ہو بلکہ محاورات میں ہر اوپر سے آنے والی چیز کو آسمان سے آنے والا کہتے ہیں۔چوتھی نعمت اس پانی کے ذریعے پھل پیدا کرنا اور پھلوں سے انسان کی غذاپیدا کرنا ہے۔ پروردگار کی مذکورہ چار صفات میں سے پہلی تین تو ایسی ہیں کہ ان میں انسان کی سعی وعمل تو کیا خود اس کے وجود کو بھی دخل نہیں۔ بے چارے انسان کا نام ونشان بھی نہیں تھا،جب زمین وآسمان پیدا ہو چکے تھے اور بادل وبارش اپنا کام کر رہے تھے۔(ماخوذ از معارف القرآن:۱؍۱۳۶-۱۳۵)
اس تمہید کو غور سے پڑھیے اور غور کیجیے کہ آخر اس کائنات میں انسان کا کیا عمل دخل ہے؟ آپ کو جواب نفی میں ملے گا۔لیکن کیا کیجیے! اس کے باوجود انسان کی جہالت و غرور کا یہ عالم ہے کہ اتراتا پھرتا ہے، اس قادرِ مطلق رب کی نافرمانی کرتا ہے، پھر اپنے منصوبے بناتا ہے اور قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور قدرت سے چھیڑ چھاڑ ہی کا تو نتیجہ ہے کہ یا تو بارش کے موسم میں بارش نہیں ہوتی اورجب ہوتی ہے تو اس قدر کہ انسانی زندگی کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔خیال رہے ،اللہ تعالیٰ اس کائنات کو تباہ نہیں کرنا چاہتے،یہ تو ہمارے اعمالِ بد ہیں،جن کے باعث ہمارے ساتھ یہ حادثات پیش آتے ہیں۔تقریباًدو مہینوں سے اخبارات میں یہ بات بار بار آرہی تھی کہ اس سال بارش نہ ہونے کے سبب پانی کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی ،سوکھا پڑنے کا اندیشہ تھاوغیرہ وغیرہ۔ اب دیکھیے دو تین دن میں ہی اتنا پانی برس گیا کہ انسان کہتے ہیں کہ پریشان ہو گئے۔ تا دمِ تحریرممبئی میں زبردست بارش کا سلسلہ جاری ہے۔
اس وقت مضمون نگار اپنے قارئین کو اسی جانب متوجہ کرنا چاہتا ہے کہ یہ سب بلا سبب نہیں،اس کے پیچھے ہمارے اعمال ِ بد کی سیاہی ہے،اس لیے ہمیں ایسے موقعوں پر اپنے رب سے اپنابگڑا رشتہ استوار کرنے کی ضروت ہے۔قربان جائیے رسول اللہﷺ کے!اُفق پر بادل چھا جانے پربھی آپﷺ کے چہرۂ انور کارنگ متغیر ہوجاتا تھا،آپ بے چینی سے اندر باہر آنے جانے لگتے تھے، اس لیے کہ پہلے بھی ایک قوم پر بادل چھا جانے کے بعد اس میں سے پانی کی بجائے آگ کی بارش ہوئی تھی۔ اس لیے حضرت نبی کریمﷺ بے چین رہتے تھے۔(مسلم:۲۰۸۴) جو ہوائیں بارش کے آنے کی خبر دیتی ہیں،انھیں محسوس کر کے آپﷺ یہ دعا پڑھتے:
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ خَیْرَہَا، وَخَیْرَ مَا فِیہْاَ، وَخَیْرَ مَا اُرْسِلَتْ بِہٖ، وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّہَا، وَشَرِّ مَا فِیْہَا، وَشَرِّ مَا اُرْسِلَتْ بِہٖ۔(مسلم:۲۰۸۵)
 اے اللہ! میں آپ سے اس کی خیر وبرکت کا اور جو کچھ اس میں ہے،اس کی خیر وبرکت کا اور جس چیز کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے،اس کی خیر وبرکت کا سوال کرتا ہوں اور اس کے شر سے اور جو اس کے اندر ہے اس سے او رجس چیز کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے،اس کے شر سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔
جب بارش ہونے لگتی تو آپ یہ دعا فرماتے:
اَللّٰہُمَّ صَیِّباً نَافِعاً۔(بخاری:۱۰۳۲)
اے اللہ ! خوب برسنے اور نفع دینے والی بارش برسا۔
جب آپﷺ بارش سے خطرہ محسوس فرماتے تو اس طرح دعا فرماتے:
اَللّٰہُمَّ حَوَالَیْنَا وَلَا عَلَیْنَا، اَللّٰہُمَّ عَلَی الْآکَامِ وَالظَّرَابِ وَبُطُوْنِ الْأوْدِیَۃِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ۔(بخاری:۱۰۱۴)
اے اللہ! ہمارے اردگرد (بارش برسا تاکہ ہماری ضرورت پوری ہو جائے)،ہم پر نہ برسا(کہ ہمارے کام کاج ٹھپ ہو جائیں) ۔اے اللہ! پہاڑوں اور وادیوںپر،جنگلوں اور ندی نالیوں پراور درخت اگنے کے مقامات پر بارش برسا۔
کبھی تیز ہوا کے چلنے پر آپﷺ گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے اوراس طرح دعا فرماتے:
اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہَا رَحْمَۃً وَلَا تَجْعَلْہَا عَذَاباً، اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہَا رِیَاحاً وَّلاَ تَجْعَلْہَا رِیْحاً۔(الأذکار:۴۷۱)
اے اللہ ! آپ اسے رحمت بنائیے، عذاب مت بنائیے، اے اللہ ! آپ اسے (مبارک مینہ کا پیش خیمہ اور)مفید بنائیے، بے فائدہ مت بنائیے۔
ظاہر ہے اس طرح جو بارش ہوگی وہ انسان کے مفاد میں ہوگی لیکن کیا ہم نے بھی کبھی اس طرح اللہ تعالیٰ سے مانگا ہے؟پھر شکوہ کیوں ہے کہ یہ بارش ہمارے لیے زحمت بن گئی!بارش جیسی عظیم نعمت ہماری غفلتوں کی وجہ سے اعتدال سے زیادہ ہوتی ہے،تو ہم اسے کوسنے لگتے ہیں،خیال رکھیے رسول اللہ ﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمایاہے بلکہ فرمایا ایسا کرنے سے فقر وفاقہ آتاہے۔(الأذکار:۴۶۷)

 اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے معاملات کا حل بارگاہ ِ الٰہی میں تلاش کریں اوراس کے لیے نبوی طریقہ اپنائیں۔ویسے بھی اس وقت پورے عالم کے جو حالات ہیں،ان میں اس بات کی اشدّ ضروت ہے کہ ہم اللہ کی رحمت کی چادر میں پناہ گزیں ہوں،تاکہ ہمیں امن ملے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں تاکہ امن کی ہوائیں عام ہوں۔واللہ الموفق

No comments:

Post a Comment