Friday, 5 June 2015

صرف زبانی جمع خرچ کافی نہیں!
مولانا ندیم احمد انصاری (ممبئی)

وطن عزیز ہندوستان میں ایک عرصے سے مذہبی منافرت کو کچھ اس طرح ہوا دی جا رہی ہے کہ ہر ایک تو اس کا ادراک بھی نہیں کر پاتا، ہاں اہلِ نظر ضرور اس سے تشویش میں مبتلا ہیں، خواہ مسلمان ہوں یا ہندو۔ اکثریت کی نسلِ نو کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ اس ملک کے کرتا دھرتا تم ہی ہو اور جو اقلیتیں یہاں آباد ہیں، وہ فقط تمھاری مرہونِ منت ہیں اور ساتھ ہی اقلیتوں کو اس خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر تم اس ملک میں رہنا چاہتے ہو تو تم پر لازم ہے کہ اپنے مذہب و امتیاز کو طاق میں رکھ دو اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو اپنےاس ملک کو خیر باد کہہ کر کہیں اور چلے جاؤ، ظاہر ہے کہ یہ ساری باتیں ہمارے ملک کی گنگا جمنی روایت و سیکولر آئین کے خلاف ہیں لیکن افسوس کہ ایسا کہنے والوں کی ایسی کوئی باز پرس نہیں کی جاتی کہ آیندہ کے لیے وہ اس سے تائب ہو جائیں۔ چند دن خبروں میں شائع ہونے کے بعد ان کی ان حرکتوں کو بھلا دیا جاتا ہےیااس سے بڑے کسی نئے واقعے کے باعث انھیں بھلا دینا پڑتا ہے۔ یہ ایک سیکولر ملک کی حکومت کی ذمے داری بنتی ہےکہ وہ ہر ایسی بات پر نوٹس لے جس سے ملک کی سالمیت خطرے میں پڑے اور اقلیت واکثریت کے بیچ  خلیج حائل ہو لیکن ہمیں بلند بانگ دعوے کرنے والی حکومت کی اس جانب کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔
گذشتہ دنوں وزیر اعظم نریندر مودی نے یو این آئی کو دیے ایک تازہ انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کی حکومت اقلیتوں کے خلاف حملے برداشت نہیں کرے گی اور ملک میں کسی کمیونٹی کے تئیں امتیازی سلو ک برداشت نہیں کیا جائے گا، ہمارے ملک کا آئین سب کو مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ما قبل میں سنگھ پریوارکےبعض لیڈروں کی جانب سے اقلیتی طبقے کے مخالفت میں جو بیان دیے گئے ہیں وہ غیرضروری تھے۔ وزیر اعظم نے جس طرح ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنی بات کہی اس سے فایدہ اٹھاتے ہوئے جہاں سنگھ پریوار نے یہ کہہ کر کنارہ کر لیا ہے کہ وزیر اعظم کا اشارہ ہماری طر ف نہیں ہے، وہیں آرایس ایس کا کہنا ہے کہ وہ تو راشٹریہ سیوک سنگھ ہے،سنگھ پریوارنہیں،جب کہ اقلیتوں کا زور اس بات پر ہے کہ خودبی جے پی کے لیڈران بھی اس فرقہ پرستی کوہوادینے میں مصروف ہیں، جس پر وزیراعظم کوئی کاروائی نہیں کررہے ہیں ۔ان کی بات بھی درست ہے، اس لیے کہ مسلسل متنازعہ بیانات دینے والے؛گری راج اورسادھوی نرنجن جیوتی،مینکاگاندھی اورمختارعباس نقوی جیسے لیڈان اب بھی کابینہ میں موجود ہیں۔ان پر ان کے متنازعہ بیانات کے باوجود کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی اور نہ ان کے اقتدار میں کوئی فرق آیا۔جب کہ ان سب سے اقلیتی طبقے میں ایک گو نا احساسِ عدمِ تحفظ بڑھ رہا ہے، جس پر یہ سوال رفع ہوتاہے کہ اس طرح کی بیان بازیاں کرنے والوں پر کوئی نوٹس کیوں نہیں لیا جا رہا ہے؟
 ایک طرف وزیر اعظم کا یہ بیان گزشتہ ایک سال کے دوران اشتعال انگیز بیانات دینے والوں کے لیے ایک سخت پیغام سمجھا جا رہا ہے، دوسری طرف ہم جیسوں کے لیے اسے صرف زبانی جمع خرچ سمجھنے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ جب سے مودی سرکار بر سر اقتدار آئی ہے تب سے مذہبی مقامات پر حملے اور بی جے پی و سنگھ پریوار سے وابستہ لیڈروں کی اشتعال انگیز بیان بازیاں تسلسل کے ساتھ جاری ہیں، جس کی وجہ سے مو د ی سرکار کو کافی تنقیدوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا رہا ہے لیکن ان سب کے باوجود کوئی قابلِ قدر اصلاح اب تک سامنے نہیں آئی ہے۔ اس پس منظر میں کیا وزیر اعظم اپنے اس تازہ ترین انٹرویو کے ذریعے اسی بگڑتی شبیہ کو سنوارنے کی کوشش تو نہیں کر رہے؟ہاں اگر وہ واقعی اپنی بات میں خلوص رکھتے ہیں تو ہم ان کے اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں ، جب کہ وہ اس جانب جلد ہی کوئی عملی پیش قدمی بھی کریں،ورنہ تو ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں کہ اس بیان کو محض زبانی جمع خرچ پر محمول کریں۔ یہ فقط ان کی زبان کا ہنر ہی سمجھا جائے گا، جس سے وہ ایک تاثر دینادینا چاہتے، جس میں وہ کامیاب نہیں ہیں۔وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ اچھے دن آ چکے ہیں لیکن کچھ لوگ ہمارے کاموں کو خراب کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ان کی اس بات کو ماننے کے لیے بھی ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں، اس لیے کہ ہمارے مشاہدے کے مطابق اس ایک سال میں جس قدر مہنگائی بڑھی ہے، جس قدر مذہبی منافرت کو ہوا دی گئی ہے، جس قدر اقلیت و اکثریت کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں، ان سب کو اچھے دنوں سے تعبیر کرنا کیسے ممکن ہے؟ اگر یہی اچھے دن ہیں، تو پھر برے دن کس کہتے ہیں؟ وزیر اعظم کی یہ بات درست ہے کہ اگر ملک کو ترقی کی راہ پر آگے لانا ہے تو فرقہ وارانہ منافرت کو ختم کرانا بے حد ضروری ہے، ویسے وہ زمانۂ انتخابات سے ہی ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کا نعرہ بھی بلند کرتے آئےہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک ملک کی اقلیتوں میں احساسِ تحفط پیدا نہ کیا جائے، جس کے لیے مناسب عملی اقدامات کی ضرورت ہے نہ کہ صرف بیان بازیوں کی۔
کُل ملا کر وزیر اعظم کے اس نئے بیان میں ہمیں کوئی نئی بات نظر نہیں آتی بلکہ یہ تو وہی راگ ہے، جسے وہ ایک سال سے الاپتے رہے  ہیں۔اب یا تو وہ اپنی پارٹی کے خلاف لب کشائی نہیں کرنا چاہتے یا وہ جس ملک کے وزیر اعظم ہیں اس سے زیادہ باہر رہنے کی وجہ سے ملک کی صحیح صورتِ حال سے واقف ہی نہیں لیکن پہلی صورت زیادہ قرینِ قیاس ہے۔
alfalahislamicfoundation@gmail.com

No comments:

Post a Comment