زی نیوز اور طارق فتح کی تاریک خیالی اور ہندوستانی مشترکہ تہذیب پر حملے
ندیم احمد انصاری
فی زمانہ میڈیا اور خصوصاً الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا دایرہ اتنا وسیع ہے کہ کوئی بھی اچھی یا بُری بات نہایت سُرعت کے ساتھ دور دراز بہ آسانی پہنچائی جا سکتی ہے، جس سے بد باطن یا شریر طبیعت کے لوگ جم کر اپنے مقاصد کو پورا کرتے ہیں اور اس کے مہنگا ہونے کے باعث شایدوہی لوگ اسے زیادہ استعمال میں لاپاتے ہیں۔شریف و اچھے کام کرنے والوں کو اوّل تو ان کے استعمال کا پورا طریقہ نہیں آتا، دوسرے وہ اس میں لگنے والا خرچ برداشت کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شریروں کی شرارت مزید کامیاب ہوجاتی ہے۔
زی نیوز جو اپنی بے ہودہ کارکردگی کے لیے زمانے بھر میں مشہور ہے ، گذشتہ کئی ہفتوں سے اس نے ہندوستانی مشترکہ تہذیب میں شگاف پیدا کرنے، ہندومسلم ایکتا میں بھنگ ڈالنے اور مسلمانوں کے نجی و معاشرتی مسائل میں ’کیڑے نکالنے‘ کی ذمے داری کینیڈا سے برآمد ایک پاکستانی نژاد کے سپرد کی ہے ،اور اس سے منسوب کر مستقل ایک شو جاری کیا ہے، جس کے ہر ایپسوڈ(episode) میں اسلامو فوبیا کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ پھوٹ ڈالو، راج کرو کو ایک بار پھر اس ملک میں ہوا دی جا رہی ہے، جس کے لیے یقیناً یہ چینل اور یہ شو پوری طرح ذمّے دار ہے۔ خانگی مسائل و حالات نے گذشتہ دنوں ہمیں اس طرف زیادہ توجہ دینے کی اجازت نہیں دی اور ویسے بھی اسلام دشمنی پر بے سر و پا باتیں بکنے والوں کے ہر سوال کا جواب دینا کچھ ضروری بھی نہیں، نیز بعض دردمند حضرات اس جانب متوجہ رہے، جس سے فرضِ کفایہ ادا ہوتا رہا۔
اب چند باتیں عرض کرتے ہیں۔ زمانے بھر میں اس ’کارنامے‘ کے لیے اس تاریک خیال شخص کو ہی زی نیوز نے کیوں چُنا، اس کا اشارہ اس شخص کے وکی پیڈیا میں درج حسبِ ذیل جملوں کو پڑھنے سے بھی ملتا ہے ، جس میں نہایت اختصار کے ساتھ درج ہے کہ ’’طارق فتح پاکستان نژاد کینیڈین مصنف۔۔۔اسلامی انتہا پسندی کے خلاف بولنے میں معروف ہیں، وہ برِصغیر کے مسلمانوں کی علاحدگی پسند ثقافت کے خلاف بھی کہتے رہتے ہیں۔۔۔ وہ اسلام کی اعتدال پسند اور ترقی پسند صورت کے حامی ہیں۔پاکستان کے خلاف تنقید، اسلامی بنیاد پرستی، تاریخ اور دیگر روایات پر بولنے کی وجہ سے ان کے خیالات اکثر بحث اور تنازعہ کا موضوع بن جاتے ہیں۔‘‘
درجِ بالا سطور سے بہ آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے بدنامِ زمانہ ٹی وی چینل زی نیوز کی نظرِ انتخاب اس شخص پر کیوں کر پڑی، کیوں اس نے اس پاکستانی نژاد کو گود لیا اور کیوں اس پر اعتماد کرکے لاکھوں کروڑوں خرچ کر مستقل ایک شو ’فتح کا فتویٰ‘ کے نام سے جاری کیا۔ظاہر ہے کہ زی نیوز کو پتا ہے کہ اس شخص کے تاریک خیالات کے مطابق اسلام و مسلمانوں میں ’مُلّا، کٹ مُلّا اور کٹر پنتھیوں‘ کی بہتات ہے ، جن کے خلاف بولنے میں یہ آدمی مہارت رکھتا ہے اور بہ قول اپنے ان چیزوں سے وہ سماج کو آزادی دلانا چاہتاہے۔ پہلے تو انھیں ان الفاظ ’مُلّا، کٹ مُلّا، کٹّر پنتھی‘ وغیرہ کی تعریف بیان کرنی چاہیے کہ وہ ان الفاظ کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں، دوسرے یہ بھی بتانے کی زحمت گوارا کرنی چاہیے کہ اس سے مُراد کون لوگ ہیں؟ اس لیے کہ عصری موضوعات پر چند کتابیں پڑھ لینے والے اس شخص کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اب عوام جاہل نہیں، اور اس سے بہت پڑھے لکھے لوگ دنیا میں موجود ہیں۔ اب تو ایک ہی شخص میں مختلف موضوعات سے متعلق دل چسپی کے تحت اتنا جاننے سمجھنے کا شوق موجود ہے کہ اس کے سامنے کوئی بھی کچھ بول کر اپنا اُلّو سیدھا نہیں کر سکتا۔ حیرت ہے کہ ایسے دور میں بھی اس دین و مذہب بے زار اس شخص کو ’فتوے‘ کی عظیم ترین خدمت تفویض کر دی گئی، جسے مذہبیات یا اسلامیات سے کوئی مسّ نہیں اور جو خود کو اسلام کے نازک مسائل و معاملات میں بلا سوچے سمجھے بولنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ میڈیا کا بھی عجیب دوغلاپن ہے کہ جس لفظِ ’فتویٰ‘ سے ان پر یوں تو بخار چھایا رہتا ہے،اور آج وہی لفظ انھوں نے اپنی شہرت کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ظاہر ہے کہ لوگوں کو گم راہ کرنے کے لیے اس طرح کا نام تجویز کیا گیا ہوگا، جب کہ فتویٰ فی زمانہ ایک خالص فقہی و اصطلاحی معنی میں ہی مستعمل ہے، جسے کسی اور معنی میں استعمال کرنا رائج نہیں۔
یہ بھی قابلِ غور ہے کہ زی نیوز نے جن تصاویر وغیرہ سے اس پروگرام کا افتتاح کیا اور اب تک جن موضوعات کو زیرِ بحث لایا گیا‘ وہ تمام ہی ایسے ہیں کہ جن میں دیانت کا پاس نہیں رکھا گیا،لیکن کیا کہیے کہ ان کا تو مقصد ہی اشتعال انگیزی معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اگر آپ کو اسلامی اصول و قوانین کی واقعی تفہیم درکار ہے تو اس کی آسان صورت یہ ہے کہ اہلِ علم سے استفسار کیا جائے، نیز اگر کسی غلط رسم و رواج کی اصلاح کا ہی آپ کے سینے میں درد اٹھا ہے تو حکمت و مصلحت کے ساتھ اکابرین کے طرز پر اس کا مداوا کیجیے، یا کم از کم اس شو میں ایسے افراد و مدعو کیجیے جو نازک معاملات و مسائل میں بولنے میں درک رکھتے ہوں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا، اس لیے کہ آپ کے دلوں میں مذہب و سماج کاکوئی درد ہے اور نہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب سے کوئی پیار۔ہم نے اب تک جتنی کلپس اس شو کی دیکھیں، اس سے واضح ہوا کہ کسی بھی اہم مسئلے پر اس میں کوئی قابلِ التفات بحث نہیں ہوسکی، ہاں عوام کو یہ باور کرانے کی مسلسل کوشش کی جاتی رہی کہ اسلامی نظام میں بہت سی باتیں ناقابلِ عمل ہیں، جس کی حقیقت پروپگینڈے سے زیادہ کچھ نہیں۔ اول فول بکنا اور کسی اہم مسئلے کو محض چھیڑ کر اس پر اہلِ علم کی رائے نہ لینا، ڈیٹا و معلومات رکھنے والوں کو شو میں مدعو نہ کرنا، جواب دے سکنے والوں کو موقع و وقت نہ دینا وغیرہ وغیرہ اس شو کا خاصہ ہے۔
کمال تو جب ہوا کہ زی نیوز کے اس گود لیے اس کینیڈین کو مال و شہرت کی ہوس اسٹوڈیو سے نکال کر جشنِ ریختہ تک لے آئی، جہاں اس کا ’تاریخی استقبال‘ ہوا۔استقبال کی کلپس دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ اس کے لیے مینٹلی پریپئر تھا، اس کے باوجود اب کہنایا کہلوانا شروع کر دیا کہ جشنِ ریختہ میں اس پر حملہ ہوا اور اسے کچھ غلط کہہ دیا گیا۔ پھر کیا تھا، زی نیوز نے چند ایک انٹرویو کیے جن میں یہ بات کہلوانے کی کوشش کی گئی کہ جس کی بات سے اتفاق نہ ہو تو اسے گالی دینا تو درست نہیں، لیکن یہ نہ سوچا کہ اول تو اس پر کوئی حملہ نہیں ہوا، جو کچھ وہاں ہوا‘ اسے حملے کا نام دینا تلبیس ہے، دوسرے گالی دینا ہم مانتے ہیں کہ مذہب و تہذیب کے خلاف ہے، لیکن مذہب جو کہ انتہائی حسـاس معاملہ ہے، اس میں اس قدر دروغ گوئی کے بعد اور کس طرح کے استقبال کی توقع کی جا سکتی ہے؟ پھر عوام کا وہ غصّہ تو پری پلان بھی نہیں تھا، جب آپ اپنی بکواس سے باز نہیں آتے، تو جن لوگوں کے جذبات آپ نے مجروح کیے ہیں، ان کے ری ایکشن کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ ہاںذاتی طور پر ہمارا خیال یہ ہے کہ اس معاملے میں جن لوگوں نے اس شریر کے خلاف ایف آئی درج کروائی اور جو لوگ ٹویٹر وغیرہ سوشل سائٹس پر اس کا جواب دے رہے ہیں، وہ طریقۂ احتجاج زیادہ مناسب ہے، لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ ہندوستانی مشترکہ تہذیب کبھی کسی مذہب اور اس کے ماننے والوں کے خلاف زہر افشانی کو برداشت نہیں کرتی، آپ سوا سو کروڑ ہندوستانیوں میں آگ لگانے اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے کے بعد بھی اگر ان سے حسنِ سلوک کی تمنا کرتے ہیں، تو آپ کی سمجھ میں کجی ہے!
nadeem@afif.in
No comments:
Post a Comment