Saturday 15 August 2015

جشنِ آزادی منانے والے جواب دیں!

مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹ الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
دنیا بھر میں مختلف تہوار منائے جاتے ہیں، بعض قومی اور بعض بین الاقوامی اور بعض تہوار مذہبی ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک ہندوستان کے دو قومی تہوار ہیں؛ ایک یونِ آزادی، جو کہ ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کی یاد میں منایا جاتا ہے، جس دن ملک سے انگریزوں کو نکال باہر کیا گیا تھا اور ہندوستانیوں کو غلامی کی زندگی سے آزادی ملی تھی، دوسرا یومِ جمہوریہ، جو کہ ۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء کی یاد میں منایا جاتا ہے، جس دن سے ملک میں جمہوری نظام لاگو کیا گیا تھا۔عجیب بات ہے کہ آج ہم ان دنوں کو تہوار کے طور پر رسماً منا تو لیتے ہیں لیکن سالانہ یہ احتساب نہیں کرتے کہ اس سال ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟کیا ہم واقعی اس حالت میں ہیں بھی کہ نہیں کہ یومِ آزادی یا یومِ جمہوریہ کے عنوان سے خوشیاں منائیں، اس لیے کہ خوشیاں تو وہ ہوتی ہیں، جو سرور و انبساط پیدا کر دیں، وہ نہیں جو رسم کی طرح منائی جائیں۔ہندوستان ہمارا وطن ہے،ہمارے آبا واجداد کا وطن ہے، ہمیں اپنے وطن سے محبت ہے لیکن کیا کیجیے ہمیں ہمارے ہی ملک میں شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، ہمیں گاہ بگاہ ملک بدر کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں، ہمارے بچوں کو جبراً خلافِ مذہب رسومات میں جکڑنے کی کوششیں کی جاتی ہیں، ان سب کے باوجود لال قلعے کی فصیلوں سے رسمی سے بیانات کیے جاتے ہیں، آخر کوئی تو ہو جو ان جشنِ آزادی کے متوالوں سے پوچھے کہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوکر آپ کے سچے جھوٹے وعدوں پر ہم کیوں کر یقین کرلیں اور کیسے اپنے مستقبل کو محفوظ سمجھتے ہوئے یومِ آزادی کے جشن کی تقریبوں میں حصہ لیں، ہم ان تمام خوشیوں کا دل کی گہرائیوں سے حصے دار بننا چاہتے ہیں لیکن پھر بہت سے افکار و خیالات آکر ہمیں اس سے باز رکھتے ہیں، ایسے میں جو حضرات ان کاغذ کے پھولوں میں خوشبو محسوس کرتے اور ان مصنوعی خوشیوں کا لطف اٹھاتے ہیں، ہم ان سے چند سوالوں کے جواب طلب کرنا چاہتے ہیں، امید کہ ان تمام سوالوں کا معقول جواب عنایت فرما کر ہمارے دلوں کو اطمینان بخشیں گے۔
۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء سے آج تک ہم جوش و خروش سے ملک کی آزادی پر خوشیاں مناتےآئے ہیں، قید و بند اور غلامی سے آزادی کا دن ہے بھی تہوار منانے لائق لیکن پتہ نہیں کیوں اب یومِ آزادی کے موقع پر ویسی اندرونی خوشیاں نہیں محسوس ہوتیں جیسی چند سالوں پہلے تک ہوا کرتی تھیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ دل یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ملک پوری طرح سے آزاد ہے، ۱۹۴۷ء کو وطنِ عزیز نے انگریزوں کی غلامی سے تو آزادی حاصل کر لی لیکن آج بھی ملک کے سوداگر، دہشت گردی کے ایجنٹ، اوچھی سیاست کرنے والے، ملک کو فرقہ پرستی کی بھینٹ چڑھانے والے، قوم و مذہب کے نام پر انسانیت کا خون بہانے والے، انسان نما درندے جب تک ملک میں آزاد گھوم رہے ہیں، ان کی سیاہ نظریں جب تک ملک کی سالمیت پر ٹکی ہوئی ہیں، کیسے کوئی قلبی مسرتوں کا احساس کر سکتا ہے؟ آپ کو بھلے ہی خوشیاں محسوس ہو رہی ہوں لیکن صرف معینہ تاریخ پر یوں جشن منالینا، ایسے حالات میں ہمارے لیے مشکل ہے۔ پورے ملک میں جگہ جگہ سیاسی کرتب بازیاں جس پستی کے ساتھ رواں دواں ہیں، ایسے میں کیسے ایک حسّاس شہری آزادی کی خوشیاں منائے،جہاں ہر وقت اس بات کا ڈر لگا رہتا ہو کہ کب کیا ہو جائے گا؟اٹھارویں صدی میں جس وقت انگریزوں کی مخالفت پر کمر کسی گئی اور انیسویں صدے کے نصف آخر میں جس طرح صف آرائیاں کی گئیںاس کے بعد بیسویں صدی کے نصف تک پہنچتے پہنچتے یعنی ۱۹۴۷ء میں جس دن ہم انگریزوں کو اس ملک سے کھدیڑنے میں کامیاب ہوئے، اس کے بعد تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہر طرف امن و امان اور محبت و آشتی کے زمزمے ہوتے،ہر شہری بلا خوف و خطر پُر سکون زندگی بسر کرتا، ملک کے کسی باسی کو اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی کوئی فکر دامن گیر نہ رہتی، پھر آخر کیوں ہمارے پُرکھوں کی اتنی قربانیوں کے بعد ہمیں اس نعمت سے محروم رکھا گیا؟ کیوں آج بھی ہم سلگتے ہوئے ماحول میں صبح اور جلتی ہوئی راتوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کیے گئے؟ کیا ان سب کے باوجود ہم یوں رسمی سی یومِ آزادی منائیں، جشنِ آزادی منانے والے جواب دیں؟
اس ملک میں جہاں ہندؤوں نے جنگِ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہیں مسلمان پروانہ وار اگلی صفوں میں نظر آئے ، آج ان تمام باتوںسے دانستہ و نا دانستہ چشم پوشی کی جاتی ہے، آنے والی نسلوں کو ان کی صحیح تاریخ سے محروم رکھا جاتا اور گِنتی کے چند مسلم نام گنواکر باقی سب پر سیاہ قلم پھیر دیا جاتا ہے، یہی نہیں ان مجاہدینِ آزادی کے اَخلاف کو بات بات پر کسی دوسرے ملک چلے جانے کے لیے کہا جاتا ہے اور کہنے والوں کی کوئی سرزنش بھی نہیں کی جاتی بلکہ ان کی پشت پناہی کی جاتی ہے، ان کو وزارت کے عہدے سونپے جاتے ہیں اور انھیں قانون بنانے کے حق تفویض کیے جاتے ہیں، کیا ان سب کے بعد بھی ہم یوں رسمی سا یومِ آزادی منائیں؟ملک کا اربوں کھربوں روپیہ ودیش کی بینکوں میں کالے دھن کے روپ میں جمع ہے اور ملک میں رہنے والے نان وشبینے کے محتاج ہیں،اس ملک کا شہری جسم ڈھکنے کے لیے مناسب لباس نہیں جُٹا پاتا اور ملک کا’ سب سے بڑا خادم‘ دس دس لاکھ کے سوٹ پہنتا ہے، ایک غریب گاؤں سے اپنے گھر والوں کے اخراجات پورا کرنے کے لیے سالہا سال اپنے گھر والوں سے دور کسی اور مقام و ریاست میں رہنے اور اپنے گھر والوں کا ہجر سہنے پر مجبور ہے اور پردھان سیوک ملکوں ملکوں دورے پر گھومتا ہے، ملک کی اس زبوں حالی سے چشم پوشی کرکے آخر کیسے ہم آزادی کے گیت گائیں، جشنِ آزادی منانے والے جواب دیں!
وطنِ عزیز میں بار بار کی کوششوں کے باوجود فساد مخالف بل التوا کا شکار ہے اور فسادات ہیں کہ رُکنے کا نام نہیں لیتے، پارلیمنٹ کے کارکنان خود پارلیمنٹ کے تعطل کا باعث بنے ہوئے ہیں یا ہماری حکومت تاناشاہی کا شکار ہے اور ملک کی بیٹیوں کا سرِ شام گھر سے نکلنا، ان کی عزت و ناموس کو تار تار کرنے کی فراق میں ہے، جس ریاست کا کسان خود کُشی کرنے پر مجبور ہے، اس کا وزیر اعلیٰ بیرونِ ملک مع اہل و عیال کے سیر سپاٹے میں مشغول ہے، ہمیں سمجھ میں آتا ایسے میں ہم کیسے اور کیا کریں؟ایک مذموم عمل کو کرنے والے ملک میں آزاد گھومتے پھر رہے ہیںاور ان کی یکِ بعد دیگرے ضمانتیں منظور کی جا رہی ہیں اور اسی بُرے عمل کے ردِّعمل میں ملزم شخص کو بعجلت تختۂ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے، تمام روایات کو بالائے طاق رکھ کر اس کے لیے رات کو دن بنایا جاتا ہے اور اس پر کاروائی کی جاتی ہے نتیجہً صبح کا سورج نکلنے سے پہلے اس کے لیے موت کا پروانہ تیار کر لیا جاتا ہے، اسی پر بس نہیں اس کی نمازِ جنازہ میں شریک ہونے والوں تک کو شک کے دائرے میں کھڑا کیا جاتا ہے، اس دوگلے پن اور دوہرے انصاف کے پیمانے کو دیکھنے کے بعد ہم ملک کا یومِ آزادی کیسے منائیں، جشنِ آزادی منانے والے جواب دیں!
اگر آپ کے پاس ان سوالوں کے جوابات نہیں ہیں اور واقعۃً نہیں ہیں تو کیا محض اس رسمی سی خوشیوں کا اظہار آپ کے یا کسی کے دل کو کوئی خوشی و اطمینا ن پہنچا سکتا ہے، یقیناً نہیں تو کیوں ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے اور حقیقی خوشیاں تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی؟ کیوں ہر سال بطور رسم دہلی کے راج پتھ پر یوں بھیڑ جمع کرنے کو کافی سمجھا جاتا ہے؟ کیوں لال قلعے کی فصیلوں سے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں؟ہمیں بھی اپنی آزادی، اپنے ملک کی آزادی اور اس کایومِ آزادی عزیز ہے لیکن ان فکروں کے بوجھ تَلے ہم حقیقی خوشیاں کیسے محسوس کریں؟ ہم عوام سے بھی پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا آپ کو بھی اس کی فکر نہیں؟ اگر ہے تو کیوں ان مسائل کو طاقِ نسیان کی زینت بنایا جاتا ہے؟  کیا آپ نے سوچا ہے کہ اس رویہ کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ اگر نہیں تو خدارا یہی سوچو کہ آخر کب سوچوگے!
•••

No comments:

Post a Comment