Wednesday, 8 February 2017

Intikhabat me Vote ki Islami Haisiyat , Mufti Muhammad Taqi Usmani, Al Falah Islamic Foundation, India

 (1)انتخابات میں ووٹ کی اسلامی حیثیت
افادات: مفتی محمد تقی عثمانی
تہذیب: مولانا ندیم احمد انصاری
موجودہ دور کی گندی سیاست نے الیکشن اور ووٹ کے لفظوں کو اتنا بد نام کر دیا ہے کہ ان کے ساتھ مکر و فریب، جھوٹ، رشوت اور دغابازی کا تصور لازمِ ذات ہو کر رہ گیا ہے، اس لیے اکثر شریف لوگ اس جھنجھٹ میں پڑنے کو مناسب ہی نہیں سمجھتے، اور یہ غلط فہمی تو بے حد عام ہے کہ الیکش اور ووٹوں کی سیاست کا دین و مذہب سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس سلسلے میں ہمارے معاشرے کے اندر چند در چند غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں‘ یہاں ان کا ازالہ بھی ضروری ہے۔
اپنے ووٹ کو استعمال کرنا شرعاً ضروری
پہلی غلط فہمی تو سیدھے سادے لوگوں میں اپنی طبعی شرافت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے‘ اس کا منشا اتنا برا نہیں، لیکن نتائج بہت برے ہیں۔ وہ غلط فہمی یہ ہے کہ آج کی سیاست مکر و فریب کا دوسرا نام بن چکی ہے، اس لیے شریف آدمیوں کو نہ سیاست میں کوئی حصہ لینا چاہیے، نہ الیکش میں کھڑا ہونا چاہیے اور نہ ووٹ ڈالنے کے خرخشے میں پڑا چاہیے۔یہ غلط فہمی خواہ کتنی نیک نیتی کے ساتھ پیدا ہوئی ہو، لیکن بہ ہر حال غلط اور مُلک و مِلّت کے لیے سخت مضر ہے۔ ماضی میں ہماری سیاست بلا شبہ مفاد پرست لوگوں کے ہاتھوں گندگی کا ایک تالاب بن چکی ہے، لیکن جب تک کچھ صاف سُتھرے لوگ اسے پاک کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھیں گے، اس گندگی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا، اور پھر ایک نہ ایک دن یہ نجاست خود ان کے گھروں تک پہنچ کر رہے گی۔ لہٰذا عقل مندی اور شرافت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ سیاست کی اس گندگی کو دور دور سے بُرا کہا جاتا رہے، بلکہ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ سیاست کے میدان کو ان لوگوں کے ہاتھ سے چھیننے کی کوشش کی جائے، جو مسلسل اسے گندا کر رہے ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الناس اذا راؤ الظالم فلم یأخذوا علی یدیہ أو شک أن یعمھم اللّٰہ بعقاب۔(جمع الفوائد:2/51بحوالہ ابوداؤد و ترمذی)
اگر لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیں، تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب نازل فرمائیں۔
اگر آپ کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں کہ ظلم ہو رہا ہے اور انتخابات میں سرگرم حصّہ لے کر اس ظلم کو کسی نہ کسی درجے میں مٹانا آپ کی قدرت میں ہے، تو اس حدیث کی رو سے یہ آپ کا فرض ہے کہ خاموش بیٹھنے کے بہ جائے ظالم کا ہاتھ پکڑ کر اس ظلم کو روکنے کی مقدور بھر کوشش کریں۔
ایک ایک ووٹ کی قدر و قیمت
بہت سے دین دار لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اپنا ووٹ استعمال نہیں کریں گے، تو اس سے کیا نقصان ہوگا؟ لیکن سنیے کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کیا ارشاد فرماتے ہیں؟
حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ’مسند احمد‘ میں روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من اُذن عندہٗ مؤمن فلم ینصرہ وھو یقدر علی أن ینصرہ أذن اللّٰہ علی رؤوس الخلائق۔(ایضاً:2/51)
جس شخص کے سامنے کسی مومن کو ذلیل کیا جا رہا ہو اور وہ اس کی مدد کرنے پر قدرت رکھنے کے باوجود مدد نہ کرے، تو اللہ تعالیٰ اسے (قیامت کے میدان میں) بر سرِ عام رسوا کرے گا۔
ووٹ نہ دینا‘ حرام
شرعی نقطۂ نظر سے ووٹ کی حیثیت شہادت اور گواہی کی سی ہے اور جس طرح جھوٹی گواہی دینا حرام اور ناجائز ہے، اسی طرح ضرورت کے موقع پر شہادت کو چھپانا حرام ہے۔قرآنِ کریم کا ارشاد ہے:
ولا تکتموا الشہادۃ ومن یکتمھا فانہ آثم قلبہ۔(البقرۃ:283)
اور تم گواہی کو نہ چھپاؤ، اور جو شخص گواہی کو چھپائے، اس کا دل گناہ گار ہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من کتم شہادۃ اذا دُعی الیھا کان کمن شھد بالزور۔(جمع الفوائد بحوالہ طبرانی:1/62)
جس کو شہادت کے لیے بلایا جائے، پھر وہ اسے چھپائے، تو وہ ایساہے جیسے جھوٹی گواہی دینے والا۔
بلکہ گواہی دینے کے لیے تو اسلام نے اس بات کو پسند کیا ہے کہ کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ہی انسان یہ فریضہ ادا کر دے، اور اس میں کسی کی دعوت یا ترغیب کا انتظار بھی نہ کرے۔
حضرت زید بن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الا اخبرکم بخیر الشھداء الذی یأتی بشھادتہ قبل أن یسألھا۔(ایضاً:1/261، بحوالہ مالک و مسلم وغیرہ)
کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کہ بہترین گواہ کون ہے؟ [بہترین گواہ]وہ شخص ہے، جو اپنی گواہی کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ہی ادا کر دے۔
ووٹ بھی بلاشبہ ایک شہادت ہے، قرآن و سنت کے یہ تمام احکام اس پر بھی بھی جاری ہوتے ہیں، لہٰذا ووٹ کو محفوظ رکھنا‘دین داری کا تقاضا نہیں، اس کا زیادہ سے زیادہ صحیح استعمال کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
لمحۂ فکریہ
یوں بھی سوچنے کی بات ہے کہ اگر شریف، دین دار اور معتدل مزاج کے لوگ انتخابات کے تمام معاملات سے بالکل یک سٗو ہو کر بیٹھ جائیں، تو اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ یہ پورا میدان شریروں، فتنہ پردازوں اور بے دین افراد کے ہاتھوں میں سونپ رہے ہیں۔ ایسی صورت میں کبھی بھی یہ توقّع نہیں کی جا سکتی کہ حکومت نیک اور اہلیت رکھنے والے افراد کے ہاتھ میں آئے۔ اگر دین دار لوگ سیاست سے اتنے بے تعلق ہو کر رہ جائیں تو پھر اُنھیں مُلک کی دینی اور اخلاقی تباہی کا شِکوہ کرنے کا بھی کوئی حق نہیں پہنچتا، کیوں کہ اس کے ذمّے دار وہ خود ہوں گے اور ان کے حکّام کا سارا عذاب و ثواب اُن ہی کی گردن پر ہوگا، اور خود ان کی آنے والی نسلیں اس شر و فساد سے کسی طرح محفوظ نہیں رہ سکیں گی، جس پر بند باندھنے کی اُنھوں نے کوئی کوشش نہیں کی۔
انتخابات خالص دنیوی معاملہ نہیں
انتخابات کے سلسلے میں ایک دوسری غلط فہمی پہلی سے زیادہ سنگین ہے‘ چوں کہ دین کو لوگوں نے صرف نماز، روزے کی حد تک محدود سمجھ لیا ہے، اس لیے سیاست و معیشت کے کاروبار کو وہ دین سے بالکل الگ تصوّر کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سارے معاملات دین کی گرفت سے بالکل آزاد ہیں، چناں چہ بہت سے لوگ ایسے بھی دیکھے گئے ہیں جو اپنی نجی زندگی میں نماز، روزے اور وظائف و اوراد تک کے پابند ہوتے ہیں، لیکن نہ اُنھیں خرید و فروخت کے معاملات میں حلال و حرام کی فکر ہوتی ہے، نہ وہ نکاح و طلاق اور برادریوں کے تعلّقات میں دین کے احکام کی کوئی پروا کرتے ہیں۔ایسے لوگ انتخابات کو بھی ایک خالص دنیوی معاملہ سمجھ کر اس میں مختلف قسم کی بد عنوانیوں کو گوارا کر لیتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ ان سے کوئی بڑا گناہ سرزد ہوا ہے، چناں چہ بہت سے لوگ اپنا ووٹ اپنی دیانت دارانہ رائے کے بہ جائے محض ذاتی تعلّقات کی بنیاد پر کسی نااہل کو دے دیتے ہیں، حالاں کہ وہ دل میں خوب جانتے ہیں کہ جس شخص کو ووٹ دیا جا رہا ہے‘ وہ اس کا اہل نہیں یا اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا شخص اس کا زیادہ حق دار ہے، لیکن صرف دوستی کے تعلق، برادری کے رشتے، یا ظاہری لحاظ و مروّت سے متاثر ہو کر وہ اپنے ووٹ کو غلط استعمال کر لیتے ہیںاور[اُنھیں] کبھی خیال بھی نہیں آتا کہ شرعی و دینی لحاظ سے اُنھوں نے کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔
ووٹ ایک شہادت
جیسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے ہے کہ ووٹ ایک شہادت ہے اور شہادت کے بارے میں قرآنِ کریم کا ارشاد یہ ہے:
واذا قلتم فاعدلوا ولو کان ذا قربیٰ۔(الانعام:152)
اور جب کوئی بات کہو تو انصاف کرو، خواہ وہ شخص (جس کے خلاف بات کہی جا رہی ہے) تمھارا قرابت دار ہی کیوں نہ ہو۔
ووٹ کے غلط استعمال کی مذمّت
لہٰذا جب کسی شخص کے بارے میں ضمیر اور دیانت کا فیصلہ ہو کہ جس شخص کو ووٹ دے رہے ہو‘ وہ ووٹ کا مستحق نہیں ہے، یا کوئی دوسرا شخص اس کے مقابلے میں زیادہ اہلیت رکھتا ہے، تو اس وقت محض ذاتی تعلّقات کی بِنا پر اسے ووٹ دے دینا ’جھوٹی گواہی‘ کے ذیل میں آتا ہے، اور قرآنِ کریم میں جھوٹی گواہی کی مذمّت اتنی شدّت کے ساتھ کی گئی ہے کہ اُسے بُت پرستی کے ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے۔ارشاد ہے:
فاجتنوا الرجس من الأوثان واجتنبوا قول الزور۔(الحج:30)
پس تم پرہیز کرو بتوں کی نجاست سے اور پرہیز کروجھوٹی بات کہنے سے۔
اور حدیث شریف میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدّد مواقع پر جھوٹی گواہی کو ’اکبر الکبائر‘ میں شمار کر کے اس پر سخت وعیدیں ارشاد فرمائی ہیں۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں اکبر الکبائر (بڑے بڑے گناہ) نہ بتاؤں؟ [پھر آپ نے ارشاد فرمایاکہ] اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا[بڑ ے بڑے گناہوں میں سے ہے]، ااور خوب اچھی طرح سنو! جھوٹی گواہی! جھوٹی بات! حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ لگائے بیٹھے تھے، جب جھوٹی گواہی کا ذکر آیا تو اٹھ کر بیٹھ گئے اور ’جھوٹی گواہی‘ کا لفظ بار بار ارشاد فرماتے رہے، یہاں تک کہ ہم دل میں کہنے لگے کہ کاش! آپ خاموش ہو جائیں۔ (بخاری و مسلم، جمع الفوائد:2/162)
خیانت پر مواخذہ
یہ وعیدیں تو صرف ووٹ کے اس غلط استعمال پر صادق آتی ہیں جو محض ذاتی تعلّقات کی بنا پر دیا گیا ہو، اور روپے پیسے لے کر کسی نا اہل کو ووٹ دینے میں جھوٹی گواہی کے علاوہ رشوت کا عظیم گناہ بھی ہے، لہٰذا ووٹ ڈالنے کے مسئلے کو ہرگز یوں نہ سمجھا جائے کہ یہ ایک خالص دنیوی مسئلہ ہے، اور دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں، یقین رکھیے کہ آخرت میں ایک ایک شخص کو اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور اپنے دوسرے اعمال کے ساتھ ساتھ اس عمل کا بھی جواب دینا ہے کہ اس نے اپنی اس ’شہادت‘ کا استعمال کس حد تک دیانت داری کے ساتھ کیا ہے۔
نااہل کو ووٹ دینا شدید تر گناہ
بعض حضرات یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر نااہل کو ووٹ دینا گناہ ہے تو ہم کون سے پاک باز ہیں؟ہم صبح سے لے کر شام تک بے شمار گناہوں میں ملوّث رہتے ہیں۔ اگر اپنے گناہوں کی طویل فہرست میں ایک اور گناہ کا اضافہ ہو جائے تو کیا حرج ہے؟ لیکن خوب سمجھ لیجیے کہ یہ نفس و شیطان کا سب سے بڑا دھوکہ ہے، اول تو انسان اگر ہر گناہ کے ارتکاب کے وقت یہی سوچا کرے تو وہ کبھی کسی گناہ سے نہیں بچ سکتا، اگر کوئی شخص تھوڑی سی گندگی میں ملوث ہو جائے، تو اس کو اس سے پاک ہونے کی فکر کرنی چاہیے، نہ کہ وہ غلاظت کے کسی تالاب میں چھلانگ لگا دے۔
دوسری بات یہ ہے کہ گناہ گناہ کی نوعیتوں میں بھی بڑا فرق ہے، جن گناہوں کے نتائجِ بد پوری قوم کو بھگتنے پڑیں، ان کا معاملہ پرائیویٹ گناہوں کے مقابلے میں بہت سخت ہے۔ انفرادی نوعیت کے جرائم، خواہ اپنی ذات میں کتنے ہی گھناونے اور شدید ہوں، لیکن ان کے اثرات دو چار افراد سے آگے نہیں بڑھتے، اس لیے ان کی تلافی بھی عموماً اختیار میں ہوتی ہے، ان سے توبہ و استغفار کر لینا بھی آسان ہے اور ان کے معاف ہوجانے کی امید بھی ہر وقت کی جا سکتی ہے، اور اس کے بر خلاف جس گناہ کا برا نتیجہ مُلک اور پوری قوم نے [کو] بھگتنا ہو، اس کی تلافی کی کوئی صورت نہیں، یہ تیر کمان سے نکلنے کے بعد واپس نہیں آسکتا، اس لیے اگر کسی وقت انسان‘ اس بد عملی آیندہ کے لیے توبہ کر لے تو کم از کم ماضی کے جرم سے عہدہ برا ہونا بہت مشکل ہے، اور اس کے عذاب سے رہائی کی امید بہت کم ہے۔
اس حیثیت سے یہ گناہ چوری، ڈاکہ، زناکاری اور دوسرے تمام گناہوں سے شدید تر ہے، اور اسے دوسرے جرائم پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ یہ درست ہے کہ ہم صبح و شام بیسیوں گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں، مگر [وہ]سب گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی وقت توبہ کی توفیق بخشے تو معاف بھی ہو سکتے ہیں اور ان کی تلافی بھی کی جا سکتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم اپنی گردن ایک ایسے گناہ میں بھی پھنسا لیں جس کی تلافی ناممکن اور جس کی معافی بہت مشکل ہے۔
ایک ایک ووٹ کی اہمیت
بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ لاکھوں ووٹوں کے مقابلے میں ایک شخص کے ووٹ کی کیا حیثیت ہے؟ اگر وہ غلط استعمال بھی ہو جائے تو ملک و قوم کے مستقبل پر کیا اثر انداز ہو سکتا ہے؟لیکن خوب سمجھ لیجیے کہ اول تو اگر ہر شخص ووٹ ڈالتے وقت یہی سوچنے لگے تو ظاہر ہے کہ پوری آبادی میں کوئی ایک ووٹ بھی صحیح استعمال نہیں ہو سکے گا، پھر دوسری بات یہ ہے کہ ووٹوں کی گنتی کا جو نظام ہمارے یہاں رائج ہے‘ اس میں صرف ایک ان پڑھ، جاہل شخص کا ووٹ بھی ملک و ملت کے لیے فیصلہ کُن ہو سکتا ہے، اگر ایک بے دین، بد عقیدہ اور بد کردار امیدوار کے بیلٹ بکس میں صرف ایک ووٹ دوسروں سے زیادہ چلا جائے، تو وہ کامیاب ہو کر پوری قوم پر مسلّط ہو جائے گا۔ اس طرح بعض اوقات صرف ایک جاہل اور ان پڑھ انسان کی معمولی غفلت، بھول چوک یا بد دیانتی بھی پورے ملک کو تباہ کر سکتی ہے، اس لیے مروجہ نظام میں ایک ایک ووٹ قیمتی ہے اوریہ ہر فرد کا شرعی، اخلاقی، قومی اور ملّی فریضہ ہے کہ وہ اپنے ووٹ کو اتنی ہی توجہ اور اہمیت کے ساتھ استعمال کرے، جس کا وہ فی الواقع مستحق ہے۔


(جاری)


Bank aur uske Interest se mutalliq chand Sharayi masail, Nadeem Ahmed Ansari, Al Falah Islamic Foundation, India

بینک اور اس کے انٹرسٹ سے متعلق چند شرعی مسائل
ندیم احمد انصاری
گذشتہ دنوں نوٹ بندی کے بعد سے ہندوستان کے ہر شہری کو بینک سے جس طرح سابقہ پڑا، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسلام چوں کہ پاکیزگی ، تقویٰ و طہارت اور ہم دردی کو پسند اور ظلم و سود خوری کو ناپسند کرتاہے ، اور بینک سے معاملات کرنے پر خواہی نہ خواہی سود وغیرہ سے سابقہ پڑتا ہے ، اس لیے ضروری معلوم ہوا کہ ان حالات میں اسلام کے ماننے والوں کے لیے چند شرعی مسائل پر رہ نمائی کی جائے ، تاکہ ان کا مال طیّب اور ان کی خوراک حرام کی آمیزش محفوظ رہے ۔
بلا وجہ بینک رقم جمع کرنا
اصل تو یہ ہے کہ چوںکہ بینک کے اکثر معاملات سودی ہوتے ہیں، اس لیے بغیر کسی مجبوری کے بینک میں رقم جمع کرانا ہی جائز نہیں ہے ۔(احسن الفتاویٰ)البتہ مجبوری کی صورت؛ مثلاً گھر میں روپیوں کا محفوظ رہنا مشکل ہو، یا چوری یا ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہو، (یا ہندوستان کے عجیب و غریب قانون کی طرح اپنی رقم گھر میں رکھنے کو کالے دھن کا نام دیا جانے لگے)تو بینک میں رقم جمع کرانے کی گنجائش ہے ۔ (فتاویٰ محمودیہ)مختصر یہ کہ مسلمان اپنے روپے بہ غرضِ حفاظت بینکوں کے کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھ سکتے ہیں، جس پر اگر کوئی سودی رقم اُن کے کھاتے میں آجائے تو اُسے اپنے استعمال میں نہ لائیں، بلکہ غریبوں پر تقسیم کردیں۔(نظام الفتاویٰ)
بینک کے سود کو منافع قرار دینا
بینک کے سود کے نتائج آج عفریت کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں، امیروں کا امیر تر ہونا اور غریبوں کا غریب تر ہونا، ملک میں طبقاتی کشمکش کا پیدا ہوجانا اور ملک کا کھربوں روپے کا بیرونی قرضوں کے سود میں جکڑ جانا، اسی سودی نظام کے شاخسانے ہیں۔ قرآن مجید نے سودی نظام کو اللہ اور رسول کے خلاف اعلانِ جنگ قرار دیا ہے ، اسلامی معاشرہ خدا اور رسول سے جنگ کرکے جس طرح چور چور ہوچکا ہے ، وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے ۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ کچھ لوگوں نے بینک سے سودی قرضہ لیا اور پھر اس لعنت میں ایسے جکڑے گئے کہ نہ جیتے ہیں، نہ مرتے ہیں۔ ہمارے معاشی ماہرین کا فرض یہ تھا کہ وہ بینکاری نظام کی تشکیل غیرسودی خطوط پر استوار کرتے ، لیکن افسوس کہ آج تک سود کی شکلیں بدل کر ان کو حلال اور جائز کہنے کے سوا کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل مخرج)
ہندوستانی بینکوں و پوسٹ آفس کا سود
بینک اور ڈاک خانے سے ملنے والی سودی رقم شرعاً حرام ہے اور اسے فقرا پر تقسیم کرنا ضروری ہے ۔ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں اس کا یہی حکم ہے ،علماے محققین کا متفقہ موقف یہی ہے ۔ جو لوگ ہندوستان کو دارالحرب کہہ کر اس کے سود کو حلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ مولانا اشرف علی تھانویؒجیسے محقق علما نے دلیل کے اعتبار سے حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کو راجح قرار دیا ہے ، جس میں واقعی دار الحرب میں بھی سودی لین دین کو ممنوع کہا گیا ہے ۔(امداد الفتاوی)دیگر اکابرین میں مولانا حسین احمد مدنیؒ کی بعض تحریرات سے بینک کے سود کو لینے کی جو اجازت معلوم ہوتی ہے ، وہ در حقیقت انگریزی دورِ حکومت کے بینکوں کے بارے میں ہے ، چناںچہ انھوں نے بھی مشترکہ قومی بینکوں سے سود لینے کو ممنوع قرار دیا اور فرمایا ہے کہ ہم مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ سود کا لین دین اور معاملہ حرام سمجھیں اور اس سے باز آئیں، اور اپنے اخراجات کم کریں، تاکہ قرض لینے کی نوبت نہ آئے ۔(فتاوی شیخ الاسلام)
یوروپین بینکوں میں رقم جمع کروانا
غیر مسلم ممالک کے وہ بینک جن کے مالک بھی غیر مسلم ہیں، اس بارے میں موجودہ دور کے بعض علما کا کہنا ہے کہ ان بینکوں میں رقم رکھوانا اور اس رقم پر بینک جو منافع دیتا ہے ، اس کو لینا جائز ہے ، لیکن جمہور فقہا نے بعض علما کے اس قول کو قبول نہیں کیا، حتی کہ متاخرین حنفیہ نے اس قول کے مطابق فتویٰ بھی نہیں دیاہے ۔(فقہی معاملات ملخصا)محققین علما کا فتویٰ ہے کہ دارالحرب میں بھی غیر مسلموں سے سود لینا حرام ہے ۔(احسن الفتاویٰ) بلکہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ آج کل موجودہ دور میں عام اسلامی حکومتوں پر مغربی ممالک ہی کا تسلط اور کنٹرول ہے اور ان کے کنٹرول کے اہم عوامل میں سے ایک یہ ہے کہ انھوں نے مسلم ممالک کی دولت کو یا تو غصب کر لیا ہے یا مسلم ممالک نے ان مغربی ممالک سے جو قرض لیا ہے ، اس قرض پر سود کی صورت میں مسلمانوں کا مال حاصل کر لیا ہے ۔ دوسری طرف مسلمانوں نے جو بڑی بھاری رقمیں ان ممالک کے بینکوں میں رکھوائی ہیں، ان رقموں پر بھی ان کا قبضہ ہے ، اس رقم کو وہ اپنی ضروریات میں خرچ کرتے ہیں، بلکہ اس رقم کو مسلمانوں ہی کے خلاف سیاسی اور جنگی اسکیموں کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، لہٰذا مسلمان اپنی رقم پر ملنے والا سود وہاں چھوڑ دیں تو اس کے ذریعے ان کفار کو تقویت ہوگی، ان حالات کی وجہ سے میرا رجحان اس طرف ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کے لیے غیر مسلم ممالک میں غیر مسلموں کی بینکوں سے اپنی رقم پر ملنے والے سود کو وصول کر لینا جائز ہے ، لیکن اس رقم کو اپنی ضروریات میں صَرف کرنا ٹھیک نہیں ہے ، بلکہ بلا نیتِ ثوابت کسی نیک مصرف میں خرچ کر دینا چاہیے ، اس طرح جو مسلمان اپنی رقمیں ان بینکوں میں رکھوا کر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے کام میں ان کافروں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، اس تعاون میں کمی ہو جائے گی۔(فقہی معاملات)
بینک کی سودی رقم کیسے ادا کرے
اگر کسی نے اپنی رقم کی حفاظت کے لیے بینک کے کھاتے میں رقم جمع کی، جس پر اسے لازمی سود ملا، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ سودی رقم کسی ضرورت مند فقیر کو دے دے ، لیکن جب تک کھاتے میں یہ سودی رقم بینک کی طرف سے منتقل نہ ہو، اس سے قبل اپنی جمع شدہ رقم سے سود کی نیت سے رقم منہا کرنا کافی نہیں ہوگا،کیوں کہ اب تک اس میں سودی رقم شامل ہی نہیں ہوئی،البتہ جب کھاتے میں سودی رقم آجائے ، تو اسی کے بہ قدر رقم نکال کر الگ کرنے سے بقیہ جمع شدہ رقم سود سے محفوظ قرار پائے گی، اور اس صورت میں سود کی نیت سے جو رقم نکالی جائے ، وہ اپنی ذات پر خرچ کرنا جائز نہیں ہے ، البتہ غیر واجبی ظالمانہ ٹیکس میں خرچ کرنے کی گنجائش اور غریب محتاج پر بلا نیتِ ثواب صرف کرنا درست ہے ۔(فتاویٰ محمودیہ)
ایک شبہ اور اس کا ازالہ
ایک عام شبہ یہ ہے کہ بینک میں ساری ہی رقوم ایک ہی کھاتے میں خلط ملط رہتی ہیں، محض سود کا اور غیر سود کا حساب صاف صحیح رکھنے کی غرض سے صرف کاغذات میں الگ الگ اندراج رہتا ہے اور بینک ہی میں الخطل استہلاک صادق آچکا ہوتا ہے ، تو اب بینک سے نکالنے کے بعد یہ امتیاز وغیرہ سب فرضی ہی رہ جاتا ہے ، اس لیے یہ سب احکام بے کار و بے محل ہیں، تو جواب یہ ہے کہ بینک حکومتِ غیر مسلمہ کے ہیں، اور وہ ان احکام کے مخاطب نہیں ہیں کہ یہ سب احکام ان پر لاگو ہوں اور ہماری اس میں ذمّے داری بھی نہیں ہے اور نہ ہمارا اس میں کچھ دخل ہی ہے کہ بینک میں رہنے کی حالت میں ہم پر یہ احکام متوجہ ہوں، البتہ بینک سے نکل کر ہمارے پاس پہنچنے پر چوں کہ ہم بفضلہ تعالیٰ مسلمان ہیں اور ان سب احکام کے مخاطب و مکلف ہیں، اس لیے یہ سارے احکام ہم پر متوجہ ہو جاتے ہیں ۔(منتخبات نظام الفتاویٰ)
اِنکم ٹیکس سے بچنے کی ایک تدبیر
غیر واجبی ٹیکس کی ادایگی سے بچنے کے لیے بہ طریقِ حیلہ بینک میں وقتی طور پر روپے جمع کرنے کی گنجائش نکل سکتی ہے ، لیکن اس سے جو بھی سود ملے وہ اپنی ذات پر یا رشوت کے طور پر یا کسی غنی پر خرچ کرنا جائز اور درست نہیں ہے ، اس سودی رقم کو انکم ٹیکس جیسے غیر واجبی ٹیکس میں یا پھر فقرا ومساکین پر خرچ کرسکتے ہیں۔ (ایضاح النوادر)
اِنکم ٹیکس کٹنے پر سودی رقم سے بھرپائی
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ سرکاری ملازم وغیرہ، جن کی تنخواہ سے انکم ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے کہ وہ اپنی تنخواہ کو حکومت کے ذریعے دیے گئے سود سے پورا کرسکتے ہیں، جب کہ یہ درست نہیں ہے ، یعنی انکم ٹیکس کٹ جانے کے بعد سودی رقم اپنے استعمال میں نہیں لائی جا سکتی، ہاں یہ کیا جا سکتا ہے کہ تنخواہ ملنے پر پہلے پوری رقم وصول کرلیں، پھر انکم ٹیکس کی رقم سودی رقم سے منہا کرادیں۔ (ایضاح النوادر)
قبضے سے قبل سود کی ادایگی
جب تک بینک میں جمع شدہ سودی رقم الگ کرنے کے بعد کھاتے دار کے قبضے اور تصرف میں نہ آجائے ، اس وقت تک اس سودی رقم کا تصدق واجب نہیں، لہٰذا واجب سے پہلے اس کی طرف سے دوسری رقم بدل کر خرچ کردینے سے بعد میں واجب ہونے والے تصدق کی تلافی ہرگز نہیں ہوسکتی، اس لئے جب بھی سودی رقم ملے گی اس کو بلانیتِ ثواب فقرا پر صرف کرنا لازم ہوگا۔(ایضاح المسائل)
فقرا پر صدقے کی نیت سے سود کا حصول
بعض لوگ دریافت کرتے ہیں کہ اس نیت سے سودی بینک میں روپے جمع کرنا کہ آنے والا سود فقرا پر تقسیم کر دیںگے ، کیسا ہے ؟ تو جاننا چاہیے کہ علماے کرام نے اسے ممنوع قرار دیا ہے ، اس لیے ایسا کرنا ہرگز جائز اور درست نہیں ہے ۔ اگر فقرا کے ساتھ خیرخواہی کا ارادہ اور خواہش ہو تو اپنی حلال اور پاکیزہ کمائی کے ذریعے فقرا کی امداد کریں، فقرا کو بہانہ بناکر سود حاصل کرنا ہرگز درست نہیں۔ (احسن الفتاویٰ)
فکس ڈپازٹ کرنا
بینک میں ایک اسکیم ہوتی ہے ، جسے ’فکس ڈپازٹ‘ کہا جاتا ہے ، مثلاً چند سالوں کے لیے معتد بہ رقم جمع کی جاتی ہے اور مقررہ وقت کے بعد جمع کرنے والے کو وہ رقم دوچند ہو کر ملتی ہے ، تو یہ زائد رقم لینااور اس کے لیے فکس ڈپازٹ کرنا جائز نہیں ہے ، اس لیے کہ جمع شدہ رقم پر جو اضافہ ملتا ہے ، وہ سود ہے ، اگر کسی نے ایسا کر ہی ڈالا، تو اصل رقم پر ملا ہوا نفع کسی غریب و نادار پر بلانیتِ ثواب صدقہ کرنا ضروری ہے ۔ (ایضاح النوادر)
سود کی رقم سے بیت الخلا
بہت عام ہے کہ سود کے پیسے سے بیت الخلا بنایا جا سکتا ہے ، جب کہ علما نے اسے بھی ممنوع لکھا ہے ،بعض معتبر فتاویٰ میں مرقوم ہے کہ اگر مسجد کی رقم بھی بینک میں رکھی ہو، تو اس پر ملنے والی سودی رقم سے مسجد کا بیت الخلا وغیرہ بنانا درست نہیں ہے ، اور اس نیت سے جورقم نکال کر بیت الخلا کی تعمیر اور صفائی میں لگائی گئی ہے ، وہ اپنے مصرف میں صرف نہیں ہوئی، لہٰذا مسجد کے فنڈ سے اس رقم کے بہ قدر روپے نکال کر غریبوں ومسکینوں میں تقسیم کرنا ضروری ہے ، اور یہ مستحق کوئی بھی ہوسکتا ہے خواہ مسافر ہو یا مقیم، مسجد کی کمیٹی جس پر اطمینان کرلے اس کو یہ رقم دے سکتی ہیں، اِسی طرح مسجد کے دکانوں پر حکومت کی طرف سے جو ٹیکس لگایا گیا ہے ، یہ شرعاً غیر واجب ٹیکس ہے ، لہٰذا سود کا پیسہ اس ٹیکس میں بھی صرف کرنا درست ہے ، تاکہ حکومت سے لی ہوئی رقم حکومت کے خزانے میں اس ذریعے سے لوٹائی جاسکے ، البتہ بیت الخلاکی صفائی کے لیے یا اس میں ٹائلس وغیرہ لگانے کے لیے سودی رقم صرف کرنا درست نہیں ہے ۔(احسن الفتاوی، کفایت المفتی)
nadeem@afif.in


Banat-e-Rasool ﷺ, Nadeem Ahmed Ansari, Al Falah Islamic Foundation, India

بناتِ رسول یعنی رسول اللہ ﷺ کی بیٹیاں، ندیم احمد انصاری، الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن،انڈیا

Banat-e-Rasool ﷺ yaani Rasoolullah ﷺ ki betiyaan, Nadeem Ahmed Ansari, Al Falah Islamic Foundation, India